الہامی ہدایت
حقیقت یہ ہے کہ مادی دنیا اور انسانی دنیا دونوں کا دین ایک ہے اور وہ قانون قدرت کی پیروی ہے۔ ایک ہی خالق نے دونوں کو پیدا کیا ہے اور وہی ہے جس نے دونوں کے لیے قانون عمل مقرر کیا ہے۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ مادی دنیا اپنا قانون اپنے ساتھ رکھتی ہے۔ مادی دنیا کا قانون عمل خود اس کے اندر اس طرح پیوست ہوتی ہے کہ وہ لازمی طور پر اسی کے تحت عمل کرتی ہے۔ وہ کسی طرح اس سے باہر نہیں جا سکتی۔ مگر انسان ایک صاحبِ ارادہ مخلوق ہے۔ وہ وہی کرتا ہے جو وہ کرنا چاہے اور وہ نہیں کرتا جو وہ کرنا نہ چاہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ انسان ، دوسری چیزوں کی طرح نہیں ہے کہ اس کا قانون اس کے ساتھ ہو۔ انسان کو اپنا قانونِ عمل علیحدہ سے دریافت کرنا ہے۔
مگر انسان جب بطور خود اپنا قانون عمل دریافت کرنا چاہتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس کو دریافت نہیں کر سکتا۔ انسان کی محدودیتیں (Limitations) فیصلہ کن طور پر اس کی راہ میں حائل ہیں۔
انسان کی یہی وہ کمی ہے جو اس کی زندگی کی تعمیر کے لیے ’’خدائی الہام‘‘ کو ضروری ثابت کرتی ہے۔ انسان جس قانون عمل کا حاجت مند ہے جب وہ اس کو دریافت نہیں کر سکتا تو اس کے بعد دوسری ممکن صورت یہی ہو سکتی ہے کہ وہ اس کو اس کے خالق کی طرف سے دی جائے۔ جو چیز دوسری مخلوقات کو اندرونی طور پر ملی ہوئی ہے وہ انسان کو بیرونی ذریعہ سے فراہم کی جائے۔
یہ بیرونی ذریعہ وہی ہے جس کو پیغمبر کہا جاتا ہے۔ انسان کی علمی محدودیت اس کو بیرونی ہدایت کا محتاج ثابت کرتی ہے۔ اور پیغمبر کی ہدایت کا عین انسانی طلب کے مطاق ہونا ثابت کرتا ہے کہ یہی وہ بیرونی ہدایت ہے جس کی اسے ناگزیر طور پر ضرورت تھی۔