سائنس اسلامی انقلاب سے پیدا ہوئی
توحید کی بنیاد پر جو فکری انقلاب آیا اس کے بہت سے نتائج میں سے ایک نتیجہ یہ تھا کہ انسان عالم فطرت کو اس نظر سے دیکھنے لگا کہ وہ بے بس مخلوق ہے اور انسان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس کو جانے اور اس کو اپنے کام میں لائے۔ اس ذہن کا آغاز اموی دور (661-750ء) میں دمشق میں ہوا۔ قدیم یونانی حکماء کے یہاں کیمیا چاندی سے سونا بنانے کے خبط کا نام تھا۔ خالد بن یزید بن معاویہ غالباً پہلے شخص ہیں جنھوں نے کیمیا کو ایک طبیعی علم کی حیثیت سے ترقی دینے کی کوشش کی۔ عباسی خلافت کے زمانہ میں اس شعبۂ علم نے بغداد میں مزید فروغ پایا اور اسپین اور سسلی تک پھیلتا چلا گیا۔ اس زمانہ میں مسلمان علمی اور تمدنی ترقی میں دنیا کی تمام قوموں سے آگے بڑھے ہوئے تھے۔ تاریخ کے اس دور کو یورپ کے مورخین تاریک دور(Dark Ages) کہتے ہیں۔ مگر وہ صرف یورپ کے لیے تاریک تھا، نہ کہ مسلم دنیا کے لیے۔ ورلڈ بک انسائیکلوپیڈیا کا مقالہ نگار’’ڈارک ایجز‘‘ کے عنوان کے تحت لکھتا ہے:
The term dark 'ages' cannot be applied to the splendid Arab culture which spread over North Africa and into Spain.
تاریک دور کی اصطلاح شاندار عرب کلچر پر چسپاں نہیں ہوتی جو اس زمانہ میں شمالی افریقہ اور اسپین میں پھیلا ہوا تھا۔
شرک کس طرح سائنسی تحقیق میں رکاوٹ تھا، اس کی وضاحت کے لیے یہاں ہم ایک مثال نقل کریں گے۔
قدیم یونان میں زمین اور سورج کی گردش کے بارے میں دو نظریے پیش کیے گئے تھے۔ ایک تھا ارسٹارکس کا نظریہ جس میں زمین کو سورج کے گرد گھومتاا ہوا فرض کیا گیا تھا۔ دوسرا ٹالمی کا نظریہ جس کے مطابق سورج زمین کے گرد گھوم رہا تھا۔ پہلے نظریہ کے مطابق زمین بظاہر گول تھی اور دوسرے نظریہ میں چپٹی۔قسطنطین(272-337ء) کے مسیحیت قبول کرنے کے بعد جب مسیحیوں کو یورپز میں غلبہ ہوا تو انھوں نے ٹالمی کے نظریہ کی سرپرستی کی اور دوسرے نظریہ کو بزور دبا دیا۔ اس کی وزجہ یہ تھی کہ مسیحیت نے حضرت مسیح کو خدا فرض کر لیا تھا۔ اس عقیدہ کے مطابق زمین کو یہ تقدس حاصل تھا کہ وہ خداوند کی جنم بھومی ہے اور جو کرہ خدا وند کی جنم بھومی ہو وہ کسی دوسرے کرہ کا تابع (satellite) کس طرح ہو سکتا تھا۔ زمین کو اس طرح مقدس سمجھنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے بارے میں تحقیقی کام آگے نہ بڑھ سکا۔ مشرکانہ مذہب اور سائنس کے درمیان ٹکرائو کی مزید تفصیلی مثالیں ڈریپر (1811-1882ء) کی کتاب مذہب اور سائنس کا تصادم(Conflcit Between Science and Religion) میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
عباسی خلیفہ المامون(786-833ء) کے زمانہ میں بیت الحکمت قائم ہوا اور حکومت کے خصوصی تعاون کے تحت دونوں قسم کے ترجمے عربی زبان میں کیے گئے۔ مسلمانوں نے جب اعتقادی پیچیدگی سے آزاد ہو کر دونوں نظریات کو جانچا تو ان کو پہلا نظریہ حقیقت سے قریب تر نظر آیا۔ خلیفہ المامون جو خود بھی بہت بڑا عالم تھا، اس نے اس مسئلہ کی اہمیت کو محسوس کیا۔ اس نے ہیئت و جغرافیہ کے عالموں کو حکم دیا کہ وہ زمین کو گول فرض کرتے ہوئے اس کا محیط (circumference) معلوم کریں اور اس کے لیے کسی کھلے میدان میں زمینی درجہ (terrestrial degree) کی لمبائی کی پیمائش کریں اور اس کے بعد اس سے زمین کی پوری گولائی کا اندازہ کریں۔ اس زمانہ میں مسلمانوں کے پاس آلات حساب کے نام سے صرف زاویہ ناپنے کا سادہ آلہ(quadrant)اصطرلاب، دھوپ گھڑی اور معمولی گلوب تھے۔ اس قسم کی چند چیزوں کے ذریعہ انھوں نے اپنی جدوجہد شروع کر دی۔
اس مقصد کے لیے سنجار(Palmyra) کا وسیع ہموار میدان منتخب کیا گیا۔ ایک مقام پر قطب شمالی کی بلندی کے ساتھ زاویہ قائم کرکے شمال کی جانب جریب سے ناپنا شروع کیا۔562/3میل شمال کی جانب جانے سے قطب شمالی کی بلندی کے زاویہ میں ایک درجہ کی لمبائی بڑھ گئی۔ اس سے معلوم ہوگیا کہ جب ایک درجہ کی مسافت سطح زمین پر562/3میل ہے تو زمین کا کل محیط 20(circumference) ہزار میل سے زیادہ ہونا چاہیے۔ کیوں کہ ہر نقطہ پر تمام زاویوں کا مجموعہ 360 درجہ ہوتا ہے۔ اور360 کو562/3میںضرب دینے سے 20401 میل کا فاصلہ برآمد ہوتا ہے۔ دوبارہ یہی تجربہ دریائے فرات کے شمال میں صحرائے کوفہ میں کیا گیا اور دوبارہ وہی نتیجہ نکلا— یہ پیمائش حیرت انگیز طور پر قریب بہ صحت تھی۔ کیوں کہ موجودہ زمانہ میں صحیح ترین پیمائش کے مطابق زمین کا محیط خط استواء پر25 ہزار میل ہے۔ قرون وسطیٰ میں مسلمانوں کی سائنسی ترقی کی تفصیلات پروفیسر فلپ ہٹی(1886-1978ء) کی کتاب تاریخ عرب(History of the Arabs) میں دیکھی جا سکتی ہے(375)۔