انکار سے اقرار تک

پروفیسر چندر وکرما سنگھی (پیدائش 1939ء)سری لنکا کے ایک سائنس داں ہیں اور اس وقت یونیورسٹی کالج ، کارڈیف (برطانیہ) میں ریاضیات اور فلکیات کے استاد ہیں۔ اپنے فن میں انھوں نے عالمی شہرت حاصل کی ہے۔ وہ پروفیسر سرفریڈہائل کے ساتھ 1962 سے ایک تحقیق میں لگے ہوئے تھے۔ تحقیق کا موضوع یہ تھا کہ زمین پر زندگی کا آغاز کس طرح ہوا۔ دونوں پروفیسروں نے اپنی تحقیق کے نتائج ایک کتاب کی صورت میں شائع کئے ہیں جس کا نام ہے ’’ارتقاء خلا سے‘‘ ۔

پروفیسر وکرما سنگھی نے تحقیق کا آغاز اس ذہن کے ساتھ کیا تھاکہ خالق کا تصور سائنس سے غیر مطابق ہے۔ وہ لکھتے ہیں: اپنی تحقیق کے آخری نتائج سے مجھے بڑا دھکا لگا۔ سائنسی تعلیم کے دوران شروع سے مجھے یقین دلایا گیا تھا کہ سائنس کسی بھی قسم کی ارادی تخلیق کے نظریہ سے ہم آہنگ نہیں ہو سکتی۔ اس نظریہ کو بے حد دکھ کے ساتھ چھوڑنا پڑے گا۔ میرا ذہن مجھ کو جس طرف لے جا رہا ہے وہ میرے لیے سخت غیر اطمینان بخش ہے۔ مگر اس سے نکلنے کا کوئی منطقی راستہ موجود نہیں۔

دونوں سائنس دانوں نے الگ الگ اس کا حساب لگایا کہ اتفاقی طور پر زندگی شروع ہونے کا ریاضیاتی امکان کتنا ہے۔ دونوں کی آزادانہ تحقیق اس مشترکہ نتیجہ پر پہنچی کہ اتفاقی پیدائش کا ریاضیاتی طور پر کوئی امکان نہیں۔ انھوں نے حساب لگا کر بتایا ہے کہ اتفاقی پیدائش کا امکان اگر ’’ایک‘‘ مانا جائے تو اس کے مخالف امکانات اتنے زیادہ ہیں کہ ان کو شمار کرنے کے لیے ایک کے دائیں طرف چالیس ہزار صفر لگانے ہوں گے۔ ’’یہ تعداد موجودہ حجم اور عمر (15 بلین سال) کی کائنات میں اتنی ناقابل قیاس حد تک زیادہ ہے کہ مجھے صد فی صد یقین ہے کہ زندگی ہماری زمین پر اپنے آپ اچانک شروع نہیں ہو سکتی۔‘‘

کیمیائی اتفاق سے اچانک زندگی کا شروع ہونا اس قدر زیادہ بعید بات ہے کہ وہ بالکل لغو معلوم ہوتا ہے۔ یہ سوچنا بالکل معقول ہے کہ طبیعیات کے وہ اوصاف جن پر زندگی کا انحصار ہے وہ ہراعتبار سے ارادی ہیں۔ وکرما سنگھی لکھتے ہیں ’’سرفریڈ ہائل مجھ سے زیادہ برتر خالق کی طرف مائل تھے۔ میں اکثر اس کے خلاف ان سے بحث کرتا تھا۔ مگر میں نے پایا کہ میں استدلال کی تمام بنیادیں کھو رہا ہوں۔ اس وقت میں کوئی بھی عقلی دلیل نہیں پاتا جس سے میں خدا کے نظریہ کو باطل ثابت کر سکوں۔ اگر میں کوئی دلیل پاتا، خواہ وہ کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو تو میں اس کتاب کے لکھنے میں فریڈ کا شریک کار نہ بنتا۔ اب ہم محسوس کرتے ہیں کہ زندگی کے بارے میں واحد منطقی جواب یہی ہے کہ وہ تخلیق ہے، نہ کہ کوئی الل ٹپ قسم کا الٹ پھیر۔ میں اب بھی اس امید پر ہوں کہ کسی دن میں دوبارہ خالص مشینی توجیہ پیش کر سکوں۔ ہم بحیثیت سائنس داں اس امید میں تھے کہ ہم کوئی راستہ پا لیں گے، مگر موجودہ تحقیقی نتائج کے مطابق اس کی کوئی صورت نہیں۔ منطق اب بھی مایوسانہ طور پر اس کے خلاف ہے۔

میں ایک بدھسٹ ہوں۔ اگرچہ کوئی پرجوش نہیں۔ اس اعتبار سے یہ میرے لیے کوئی مسئلہ نہ تھا۔ کیوں کہ بدھزم ایک بے خدا مذہب ہے جو اس بات کا دعویٰ نہیں کرتا کہ وہ تخلیق کے بارے میں کچھ جانتا ہے۔ بدھزم کے نظام میں خالق کا کوئی وجود نہیں۔ مگر اب میں پاتا ہوں کہ میں منطق کے ذریعہ اسی مقام پر پہنچا دیا گیا ہوں۔ اس کے سوا کوئی طریقہ نہیں جس سے ہم یہ سمجھ سکیں کہ مخصوص کیمیائی مادوں میں وہ حد درجہ درست نظام کیوں کر پایا جاتا ہے جس سے کائناتی سطح پر تخلیقات کا ظہور ہو (ہندستان ٹائمس، 6 ستمبر 1981ء) ۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom