مذہب کی طرف واپسی
امریکا کے ٹائم میگزین (18 اپریل 1966ء) کی کور اسٹوری (خصوصی مضمون) کا عنوان تھا ’’کیا خدا مر چکا ہے‘‘۔ یہ 20 سال پہلے کی بات تھی۔ اب خود مغربی دنیا میں ایسی کتابیں اور مضامین مسلسل شائع ہو رہے ہیں جن کا عنوان اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ماہنامہ اسپان (دسمبر 1984ء) میں ایک مفصل رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ اس کی سرخی کے الفاظ یہ ہیں ’’مذہب کی طرف واپسی‘‘ ۔
یہ رپورٹ الرسالہ کے انگریزی ایڈیشن میں نقل کی جا رہی ہے۔ اس کا خلاصہ یہاں مقابل کے صفحہ پر درج ہے۔ اس کے مطابق امریکا اوردوسرے مغربی ملکوں میں مختصر وقفہ کے بعد مذہب ازسرنو زندہ ہو رہاہے۔ کالجوں میں دینیات کی کلاس جو پہلے خالی رہتی تھی اب بھری رہتی ہے۔ چرچ اور سینیگاگ (یہودی عبادت خانہ) میں جانے والوں کی تعداد کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ مذہبی لٹریچر پڑھنے والوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ مذہب کے نام پر کانفرنسیں کثرت سے منعقد کی جا رہی ہیں۔ ایک پروفیسر کے الفاظ میں، یہاں مذہب میں دلچسپی کا حیرت ناک احیاء ہوا ہے۔
ایک مغربی دانشور جس نے 1965 ءمیں ’’سیکولر شہر‘‘ نامی کتاب میں بتایا تھاکہ لوگوں نے مقدس چیزوں میں اپنی دلچسپی کھو دی ہے ، اب وہ اپنی دوسری کتاب ’’سیکولر دنیا میں مذہب ‘‘ میں دکھا رہا ہے کہ مذہب میں لوگوں کی دلچسپی ازسرنو بحال ہو گئی ہے۔ دانشور طبقہ جو عرصہ سے شک کی بنا پرمذہب کو نظرانداز کئے ہوئے تھا وہ مذہب کی طرف دوبارہ دیکھنے لگا ہے۔
ڈینیل بل نے لکھا ہے کہ 18 ویں صدی کے آخر سے لے کر 19 ویں صدی کے نصف تک تقریباً ہر ترقی پسند مفکر یہ خیال کرتا تھا کہ مذہب 20 ویں صدی میں ختم ہو جائے گا۔ یہ عقیدہ عقل کی طاقت کی بنیاد پر قائم کیا گیا تھا۔ نظریہ یہ تھا کہ انسان اپنے دماغ سے اپنے مسائل کو حل کر لے گا اور اس کے بعد مذہب اپنے آپ ختم ہو جائے گا۔ مگر ایسا نہ ہو سکا۔ ہم نے ٹیکنالوجی کے ذریعہ فطرت کے اوپر غیر معمولی طاقت حاصل کر لی۔ اس کے باوجود 20 ویں صدی غالباً انسانی تاریخ کی سب سے بھیانک صدی ہے۔
چونکہ انسان کے سیکولر خدا ناکام ہو گئے ہیں ، وہ روایتی خدا کی طرف زیادہ سے زیادہ دیکھنے لگا ہے۔ ایک پروفیسر کے الفاظ میں روایت دوبارہ مثبت قوت کے ساتھ ایجنڈا پر آ گئی ہے۔
A Return to Religion
''There's no doubt about it'' 'says Harvey R. Cox, Professor of Divinity at the Harvard Divinity School. ''There's is a tremendous resurgence of religious interest here.'' It is not uncommon to see students wearing crosses or yarmulkes on campuses across the United States, and few hide the fact that they go to church or synagogue. Not just student, but the academic community in general, long a haven for sceptics, is now giving religion a second look. Cox's bestselling 1965 book. The Secular City. suggested that people had lost interest in the sacred. His new book, Religion in The Secular City. describes the current revival in religious concern. A century that has seen the Gulag, the Holocaust. Hiroshima and the spread of nuclear arms has caused some who used to champion rationalism and science to humble themselves. Since their secular gods have failed, they are beginning to view more traditional gods with a new curiosity. ''There is a reaction against extreme individualism and self, a preoccupation with and a search for roots with a new curiosity. ''There is a reaction against extreme individualism and self, a preoccupation with and a search for roots with a capital R. which takes people back to religion. says Robert N. Bellah, Ford Professor of Sociology and Comparative Studies at the University of California at Berkeley. ''Tradition is back on the agenda with a positive force.'' It would have been hard to imagine a similar revival 20 years ago. In April 1966. Time Magazine asked on its cover: ''Is God Dead?'' Among intellectuals today, God is not pronounced dead easily. Science and religion are not viewed as necessarily incompatible, and logical attempts to disprove God's existence are viewed as somewhat arcane. All of this would have surprised our intellectual predecessors. ''At the end of the 18th and to the middle of the 19th century, almost every enlightened thinker expected religion to disappear in the 20th century. ''Daniel Bell said in a seminal lecture. ''The Return of the Sacred.'' at the London School of Economics in 1977. ''The belief was based on the power of reason. ''The theory was that man could use his mind to overcome his problems, and religion would wither away. But that has hardly been the case. ''We've gained enormous power over nature via technology,'' Bell said in an interview. ''And yet, the 20th century is probably the most dreadful period in human history. ''For intellectuals, according to Bell, there have always been secular alternatives to religious faith: rationalism and the belief in science; aestheticism and he belief in art; existentialism as expressed in the works of Kierkegaard and the early Sartre, and politics—the cults of Stalin. Lenin and Mao. Yet, one by one, those alternatives, according to Bell, have exhausted their power to move individuals. ''It’s ironic that my generation should be the one coming back to religion. ''says Alan Dershowitz, 45, professor of law at Harvard Law School. ''We were the generation that had all the freedom and all the choice.'' And yet, it is the rootlessness of much of that freedom that has brought so many intellectuals back to religion. ''I can't say to you I believe in God.'' says Coles, who might be described as a spiritual faith. ''There are moments when I do stop and pray to God. But if you ask me who that God is or what kind of image He has, my mind boggles. I'm confused, perplexed, confounded. But I refuse to let that confusion be the dominant force in my life.''
مذہب کی طرف یہ واپسی حقیقتاً فطرت کی طرف واپسی ہے۔ یعنی اس خدا کی طرف واپسی جس کا احساس اس کی فطرت میں پیوست ہے نہ کہ اس خدا کی طرف جس کی نمائندگی وہ اپنے موروثی مذہب میں پا رہا ہے۔
ہارورڈ لا اسکول کے پروفیسر آلن ڈرشووٹزنے کہاکہ یہ بڑی عجیب چیز ہے کہ میری نسل مذہب کی طرف واپس آئے۔ ہم وہ نسل ہیں جس کو ہر قسم کی آزادی اور ہر طرح کی چھوٹ حاصل تھی مگر ہمیں یہ تجربہ ہوا کہ اس آزادی کا کوئی جڑ نہیں ۔ یہی بے جڑ ہونے کا احساس ہے جس نے اکثر دانشوروں کو دوبارہ مذہب کی طرف لایا ہے۔ ایک دوسرے پروفیسر مسٹر کولس نے کہا کہ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں خدا میں عقیدہ رکھتا ہوں۔ میں روحانیت کی تلاش میں ہوں نہ کہ کسی خاص مذہب کو ماننے والا۔ میری زندگی میں ایسے لمحات آتے ہیں جبکہ میں ٹھہر جاتا ہوں اور خدا کو پکارنے لگتا ہوں۔ لیکن اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ وہ خدا کون ہے اور اس کی صورت کیا ہے تو میں تردد میں پڑ جائوں گا۔ میں صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں انتشار ذہنی کا شکار ہوں۔ اگرچہ میں نہیں چاہتا کہ ذہنی انتشار میری زندگی پر پوری طرح چھا جائے۔