توازن فطرت
قطب جنوبی(انٹارکٹکا) کے بارے میں روسی جغرافیہ سوسائٹی نے تحقیقات کی ہیں۔ انھوں نے اندازہ لگایا ہے کہ قطب جنوبی کے اوپر جو برف جمی ہوئی ہے وہ دنیا بھر کے تازہ پانی کا 85 فیصد حصہ ہے۔ اس کی مقدار ڈھائی کروڑ مکعب میٹر ہے۔ قطب جنوبی کی برف اس وقت صرف ڈیڑھ کروڑ مربع میٹر کے علاقہ میں پھیلی ہوئی ہے۔
اگر اس برف کو دنیا کے تمام خشک حصہ پر پھیلا دیا جائے تو موجودہ خشک زمین پر 50 میٹر برف جم جائے گی۔ اور اگر یہ برف اچانک پگھل جائے تو دنیا کے سمندروں کی سطح60 سے70 میٹر تک بلند ہو جائے گی۔ اور زمین کا دس فیصد حصہ زیر آب ہو جائے گا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ دنیا بھر کے تمام ساحلی شہر پانی کے نیچے ڈوب جائیں گے۔ حتیٰ کہ بہت سے ملک پورے کے پورے پانی کے نیچے چلے جائیں گے۔ قطب جنوبی کی تمام برف پگھلنے کی صورت میں سمندر کی اوسط حرارت دو ڈگری کم ہو جائے گی۔ اس کی وجہ سے زمین پر موسمی تباہی آ جائے گی۔ کیوں کہ سمندر میں ایک ڈگری کم ہو جائے گی۔ اس کی وجہ سے زمین پر موسمی تباہی آ جائے گی۔ کیوں کہ سمندر میں ایک ڈگری کے ہزارویں حصہ کی کمی بیشی فضا میں پوری ایک ڈگری کی حرارت کافرق پیدا کرتی ہے۔
یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ زمین پر جو نظام ہے وہ کس قدر متوازن نظام ہے۔ یہاں بیک وقت مختلف تقاضوں کے درمیان اس طرح توازن قائم رکھا گیا ہے کہ ہر چیز صرف اپنافائدہ دے، وہ اپنے نقصان سے انسان کو بچائے رکھے۔
یہ توازن فطرت زمین کے ہر معاملے میں نمایاں ہے۔ یہ واضح طور پر بتاتا ہے کہ اس دنیا کے پیچھے ایک ذہن کار فرما ہے۔ اگر یہاں ذہن کی کارفرمائی نہ ہو تو موجودہ توازن کسی حال میں برقرار نہیں رہ سکتا۔
زمین کا مطالعہ کرتے ہوئے واضح طور پر ایسا معلوم ہوتا ہے گویا جس ہستی نے زمین کے موجودہ حالات کو ایک خاص ڈھنگ پر بنایا ہے۔ اس کو معلوم تھا کہ یہاں جاندار چیزیں (انسان، حیوان، نباتات) ہیں۔ چنانچہ یہاں کی ہر چیز جاندار اشیاء کی ضرورت کے عین مطابق بنائی گئی ہے۔ اگر یہ واقعہ آدمی کو خدا کا یقین نہ دلائے تو آخر وہ کیا چیز ہوگی جو آدمی کو اس کا یقین دلائے گی۔