مذہب انسانی تخلیق نہیں

مذہب کو بے اعتبار ثابت کرنے کے لیے موجودہ زمانہ میں جو کوششیں کی گئی ہیں ، ان میں سے ایک کوشش وہ ہے جس کا تعلق علم الانسان (anthropology) سے ہے۔ علم الانسان ، انسانی معاشرہ کا مطالعہ کرتا ہے۔ اس فن کے ماہرین نے یہ د عویٰ کیا کہ قدیم انسانی معاشروں کے مطالعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ مذہب سماجی حالات کی پیداوار ہے۔ قدیم انسانی معاشروں میں جو مختلف حالات تھے ، انھیں کے تحت مختلف مذہبی معتقدات وجود میں آتے رہے، بالفاظ دیگر مذہب آسمان سے نازل شدہ کوئی ابدی صداقت نہیں ، وہ انسان کے خود اپنے حالات کی پیداوار ہے جو کہ زمانہ کے ساتھ بنتے اور بدلتے رہتے ہیں۔ مگر بعد کو خود علم الانسان کی تحقیقات نے اس مفروضہ کو باطل ثابت کر دیا۔ یہاں اس سلسلے میں جدید تحقیقات کا ایک خلاصہ پیش کیا جاتا ہے۔

یونانی مصنف ایومیرس (Euhemerus) نے کہا تھاکہ دیوتا ابتدا میں زمین کے بڑے بڑے بادشاہ تھے۔ پھر دھیرے دھیرے وہ خدا بن گئے اور ان کی پرستش کی جانے لگی۔ بعد کو اس عقیدہ کو بتانے کے لیے ایک اصطلاح وضع ہوئی جس کو اسی نام پر ایومیرزم (euhemerism) کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دیوتا کسی زمانہ میں انسانی ہیرو تھے۔ یونانی مصنف کا یہ نظریہ محض قیاس پر مبنی تھا۔ اس نے اس واقعہ پر زیادہ دھیان نہیں دیاکہ چین اورافریقہ اور دوسرے بعض مقامات پر جہاں آباءو اجداد کی پرستش کی مثالیں ملتی ہیں وہاں ان کی پرستش خدا کی پرستش سے الگ دوسرے طریقے سے کی جاتی ہے۔

قدیم زمانہ میں اس قسم کی باتیں محض تفنن پسند لوگ کیا کرتے تھے۔ تاہم ایک سو سال پہلے بہت بڑے پیمانہ پر اس سوال کے جواب کی تلاش شروع ہوئی کہ مذہب کی ابتدائی شکل کیا تھی۔ مگر تحقیق و تلاش کے لمبے سفر کے بعد آدمی دوبارہ وہیں پہنچ گیا جہاں وہ پہلے تھا۔ اب یہ ثابت ہوا کہ مذہبی معتقدات اتنے ہی پرانے ہیں جتنی کہ انسانی تاریخ پرانی ہے۔ ایک لاکھ برس پہلے نیندر تھل انسان (Neanderthal Man) کو جب مرنے کے بعد دفن کیا گیا تو اس کے ساتھ قبر میں کھانا بھی رکھ دیا گیا تاکہ دوسری دنیا کے سفر میں اس کے لیے زادراہ کا کام دے سکے۔ اس سے ثابت ہوا کہ انتہائی ’’ابتدائی انسان‘‘ بھی مرنے کے بعد زندگی کے تسلسل کا عقیدہ رکھتا تھا۔

’’مذہب کیسے شروع ہوا‘‘ یہ سوال باقاعدہ طور پر صرف ایک سو سال پہلے وجود میں آیا۔ اس سے پہلے بائبل کی کتاب پیدائش اور قرآن کے زیر اثر عام طور پر یہ سمجھا جاتاتھا کہ پہلا انسان (آدم) جب پیدا کیا گیا تو اسی وقت خدا کا الہام بھی اس کو مل گیا جس میں اس کو یہ بتا دیا گیا تھا کہ سچا مذہب خدا کے نزدیک کیا ہے۔

مذاہب کے علماء عام طور پر یقین کرتے تھے کہ اس ابتدائی مذہب میں بعد کی نسلوںنے پہلی بار بگاڑ پیدا کیا اور اس طرح مذہب کی مختلف شکلیں بنتی چلی گئیں۔ 19 ویں صدی میں خاص طور پر نظریۂ ارتقاء نے ، تعلیم یافتہ طبقہ کے اندر یہ ذہن پیدا کیا کہ مذہب کا ارتقائی مطالعہ کرے اور اس کی ابتدائی شکلیں دریافت کرے۔ یہ فرض کر لیا گیا کہ ارتقا کا اصول ہر معاملہ میں اسی طرح جاری ہے جیسا کہ ڈارون نے حیاتیات میں دکھایا ہے۔

ابتدائی مذہب (primitive religion) اور ترقی یافتہ مذہب (higher religion) کی اصطلاحیں پیدا ہوئیں۔ اس تلاش نے بہت جلد انسان کو اس دریافت تک پہنچا دیا کہ مذہب کی ابتداء محض کچھ وہمی خیالات (illusions) سے شروع ہوئی۔ دھیرے دھیرے اصلاح ہوتے ہوتے وہ مذہب کی موجودہ ترقی یافتہ شکلوں تک پہنچی۔ اس طرح گویا علمی تجزیہ نے ثابت کر دیا کہ مذہب اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک نفسیاتی یا سماجی وہم کے سوا اور کچھ نہیں۔ مگر مذہب کے محققین کا یہ یقین دیر تک باقی نہ رہ سکا۔ تحقیق کے بعد نتائج نے اس کے ابتدائی نتائج کی تردید کر دی۔

ایڈورڈ بی ٹیلر نے 1871ء میں مذہب کے بارے میں اپنے نظریہ کی وضاحت کے لیے روحیت مظاہر (animism) کی اصطلاح وضع کی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ابتدائی انسان نے خواب ، ہذیان اور موت کے واقعہ سے یہ نتیجہ نکالا کہ اس کے اندر کوئی غیر فانی روح ہے۔ جب کوئی مرا ہوا شخص خواب میں نظر آیا تو سمجھ لیا گیا کہ انسان کی روح مرنے کے بعد بھی باقی رہتی ہے ، انھیں میں سے کچھ روحیں دھیرے دھیرے دیوتا بھی بن گئیں۔ اسی زمانہ میں ہربرٹ اسپنسر نے یہ خیال بھی پیش کیا کہ مرے ہوئے لوگ جو بھوتوں کی شکل میں دکھائی دیتے تھے ، ان کو دیوتا سمجھ لیا گیا اور ان کی پوجا ہونے لگی۔ مگر ٹیلر اور اسپنسر وغیرہ کے نظریات کا جب بعد کے محققین نے تجزیہ کیا تو وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ یہ لوگ یہ ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ دور تاریخ سے قبل کا انسان اسی ڈ ھنگ پر سوچتا تھا اور روحوں اور بھوتوں سے خدا تک پہنچنا محض قیاس پر مبنی تھا۔ اس نظریہ کے حامی اس سوال کا جواب بھی نہ دے سکے کہ اگر مردہ انسانوں کی روح سے خدا کا تصور نکلا تو یہ عالمی کیسے بن گیا جب کہ قدیم زمانہ میں کرۂ ارض پر پھیلے ہوئے مختلف قبائل کے درمیان قطعاً کوئی مواصلاتی سلسلہ موجود نہ تھا۔ چنانچہ روحیت مظاہر (animism) کا یہ نظریہ مذہب کی علمی توجیہ کی حیثیت سے آج عملاً رد کر دیا گیا ہے۔

روحیت مظاہر کا ایک اور نظریہ آر آر میرٹ نے 1899 ءمیں پیش کیا۔ اس نے کہا کہ انسان اولاً شخصی روح (Personal soul)کو نہیں مانتا تھا بلکہ غیر شخصی طاقت (impersonal force) کاعقیدہ رکھتاتھاجسنےدنیاکوزندگی عطاکی ہے۔اس نے اپنے اس نظریہ کو اینٹیمزم (antimatism)  کا نام دیا۔ مگر بعد کی تحقیق سے معلوم ہوا کہ محض ایک لفظی مغالطہ سے اس نے یہ نظریہ قائم کر لیا تھا۔ بحرالکاہل کے کنارے رہنے والے بعض قبائل جن کو میلالیسین (Melanesian) کہا جاتا ہے۔ ان کی زبان میں ایک لفظ منا (mana) ہے۔ میرٹ نے سمجھا کہ قبیلہ کے لوگ اس کو روحانی طاقت کے معنی میں بولتے ہیں اور غیر شخصی طاقت کا یہی عقیدہ مذہب کی بنیاد ہے۔ اس نے مزید کہا کہ قدیم انسان ’’تھنکر‘‘ نہ تھا بلکہ ایکٹر تھا۔ اس طرح اس کا مذہب جادو سے بہت کم مختلف تھا۔ مگر بعد کی تحقیقات نے بتایا کہ یہ قبائل ’’منا‘‘ کا لفظ غیر شخصی طاقت کے معنی میں نہیں بولتے تھے جس نے کائنات کو زندگی عطا کی ہو۔ جیسا کہ میرٹ اور دوسرے لوگوں نے سمجھ لیا تھا ، بلکہ امتیازی روحانی صفت کے معنی میں بولتے تھے۔

1890ء میں جیمز فریزر نے کتابوں کا ایک سلسلہ شائع کرنا شروع کیا جن میں سب سے زیادہ خاص سنہری شاخ (The Golden Bough) تھی۔ اس نے اپنی کتاب کا آغاز ایک ’’مقدس درخت‘‘ کی کہانی سے کیا جو قدیم اٹلی کے ایک مقام اربسیا پر ایک شخص نے لگا رکھا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اس درخت میں کوئی روحانی طاقت ہے اور اس کی مدد سے جادو کے کرشمے دکھائے جا سکتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات کو لے کر فریزر نے ایک نظر یہ وضع کیا ،جو یہ تھا— جادو پھر مذہب پھر سائنس:

Magic to Religion to Science

اس نے کہا کہ جادو کے طریقے میں جب پہلی بار ناکامی ہوئی تو انسان نے سمجھا کہ کوئی مافوق  فطرت ہستی ہے جو اس کی مدد کر کے کامیابی کو یقینی بنا سکتی ہے۔ اس طرح جادو نے مذہب کی صورت اختیار کر لی۔ پھر انسان منطقی اور تجرباتی طریقہ تک پہنچا جس کو سائنس کہا جاتا ہے۔ اپنی ارتقائی کشش کی وجہ سے یہ نظریہ شروع میں بہت مقبول ہوا۔ مگر بہت جلد معلوم ہوا کہ اس مفروضہ کے لیے کوئی تاریخی ثبوت نہیں ہے کہ جادو پہلے تھا اور مذہب اس کے بعد وجود میں آیا۔ کلچر کے ہر مرحلہ میں تاریخی دستاویزوں کے مطابق ، مذہب اور جادو دونوں ساتھ ساتھ رہے ہیں۔ اس لیے یہ نظریہ کہ ’’جادو پھر مذہب پھر سائنس‘‘ غیر تاریخی (unhistorical) ہے۔

1922 ءمیں لوسین لیوی بروہل نے ابتدائی ذہن (primitive mentality) کا نظریہ پیش کیا۔ اس نے کہا کہ دور قدیم کے وحشی انسان ایک ابتدائی منطقی فکر (pre-logical thinking) استعمال کرتے تھے جو کہ ہماری موجودہ فکر سے مختلف تھا۔ اس نے اس نظریہ پر تنقید کی کہ تمام انسان یکساں صلاحیت کے تھے جو کہ ہماری موجودہ فکر سے مختلف تھا۔ اس نے اس نظریہ پرتنقید کی کہ تمام انسان یکساں صلاحیت کے تھے۔ اس نے مثال دی کہ تمام ’’غیر ترقی یافتہ‘‘ قومیں موت کی توجیہ فطری اسباب کے سوا دوسرے اسباب سے کرتی ہیں۔ ان کے نزدیک آدمی سادہ طور پر محض بیماری یا بڑھاپے کی وجہ سے نہیں مرتا بلکہ کوئی پراسرار طاقت ہے جو اس کو مارتی ہے۔ مگر پچھلے سو برس کے دوسرے شارحین مذہب کی طرح لیوی بروہل بھی محض کرسی نشین مفکر تھا جس کو موجودہ زمانہ کے ’’ابتدائی انسان‘‘ کی خبر نہ تھی۔ حتیٰ کہ وہ اس بات سے بھی بے خبر تھا کہ قدیم انسان کس طرح سوچتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ابتدائی دور کا انسان بخوبی جانتا تھا کہ موت کس طرح طبیعی اسباب کے تحت ہوتی ہے ، اگرچہ اس کے ساتھ وہ ایک روحانی توجیہ کو بھی اس میں شامل کرتا تھا۔

ایک اور فرانسیسی مصنف امائیل ڈرخیم(David Emile Durkheim) نے 1912ء میں مذہب پر اپنی کتاب شائع کی۔ اس نے زور دیا کہ مذہب ایک سماجی واقعہ (social fact) ہے، نہ کہ انسان کی نفسیات کی پیداوار۔ مذہب وہم نہیں ہو سکتا کیوں کہ وہ ہر دور میں ہر جگہ پایا گیا ہے۔ اس نے اخلاق اور قانون کے بڑے بڑے نظام قائم کیے ہیں۔ تاہم ڈرخیم کے نزدیک مذہب خود سماج کی پرستش کا نام تھا ، اگرچہ وہ پراسرار علامتوں کے بھیس میں ظاہر ہوتا ہے۔ ڈرخیم نے اپنا تصور آسٹریلیا کے بعض قدیم قبائل سے لیا۔ مگر اس انتخاب میں ڈرخیم کی غلطی چھپی ہوئی تھی ، کیوں کہ وہ کبھی آسٹریلیا نہیں گیا۔ اس نے دوسروں کی فراہم کردہ ناقص معلومات پر اپنی نظریہ کی بنیاد رکھ دی اور پھر اس سے مستنبط کر لیا کہ تمام دنیا کے لوگ آسٹریلیا کے انھیں قدیم قبائل کے مطابق عمل کرتے تھے۔ یہ قدیم قبائل بعض پودوں اور جانوروں کو مقدس مانتے تھے اور ان کو کھانا حرام سمجھتے تھے۔ بعض مشابہتوں کی وجہ سے ڈرخیم نے اس کو شمالی امریکا کے انڈین قبائل کے ٹوٹم (Totem) کے مماثل سمجھا اور کہا کہ یہ پودے اور جانور قبیلہ کے سماجی آدرشوں کا نشان تھے جو با لآخر مذہب کی صورت اختیار کر گئے۔ مگر نہ صرف ٹوٹم کا یہ تصور بطور واقعہ باطل ہوا، بلکہ یہ بھی تاریخی طور پر ثابت نہ ہو سکا کہ ٹوٹم کا عقیدہ مذہب کے عقیدے سے پہلے پایا جاتا تھا۔

اس سے بھی زیادہ کمزور توجیہ وہ تھی جو آسٹریا کے نفسیات داں سگمنڈ فرائڈ نے 1913ء میں پیش کی۔ اس نے اپنی کتاب Totem and Taboo میں بحرالکاہل کے علاقہ کے بعض قبائل کی کہانی لکھی کہ قدیم زمانہ میں ایک طاقتور باپ خاندان کی تمام عورتوں کو اپنی ذات کے لیے مخصوص کئے ہوئے تھا۔ بعد کو جب لڑکے جوان اور طاقتور ہوئے اور باپ بوڑھا ہو گیا تو ’’ایک دن‘‘ انھوں نے باپ کو قتل کر ڈالا اور عورتوں کو آپس میں تقسیم کر لیا۔ مزید یہ کہ یہ قاتلین اپنے مقتول (باپ) کو کھا گئے۔ اس کا مطلب یہ تھاکہ باپ کی روح ان کے اندر آ گئی ، جس سے وہ ڈرتے تھے ، جس کو وہ برتر سمجھتے تھے۔ اسی کے ساتھ انھوں نے کچھ جانور مقرر کئے جو باپ کی طاقت کا نشان تھے۔ اس کے بعد انھوں نے جشن منانے شروع کئے جس میں وہ طرح طرح سے اپنے ان عقائد کا اظہار کرتے۔ یہی چیز دھیرے دھیرے مذہب بن گئی۔

مگر اس عجیب و غریب نظریہ کے لیے بعد کے محققین کو کوئی تاریخی ثبوت نہ مل سکا۔ ’’باپ‘‘ کو مذکورہ بالا شکل میں کھا جانے کی مثال امکانی طور پر ساری تاریخ میں صرف آسٹریلیا میں اور وہ بھی ایک بار ملتی ہے اور وہاں بھی شہادتیں بہت غیر واضح ہیں۔ اس کی کوئی تاریخی ، اثریاتی یا کوئی اور شہادت نہیں ہے کہ مذہب اس طرح بیٹوں کی طرف سے باپ کو قتل کرنے کے واقعات سے شروع ہوا۔ یا یہ کہ مذہب ساری دنیا میں ایک ہی جگہ سے پھیلا ہے یا ہر ملک میں اسی خاص ڈھنگ سے شروع ہوا۔

مذہب کے آغاز کے نفسیاتی یا سماجی نظریات کے بالکل برعکس کچھ مصنفین نے د عویٰ کیا ہے کہ قدیم ترین مذہبی عقیدہ ایک برتر ہستی کا عقیدہ تھا۔ اینڈریو لینگ (Andrew Lang) نے 1898 ءمیں مذہب کی تشکیل (The Making of Religon) اور ولہلم اسمٹ (Wilhelm Schmidt) نے خدا کے تصور کی ابتدا (The origin of the Idea of God) شائع کی جس میں شدت سے یہ نظریہ پیش کیا گیا۔ لینگ نے طویل سفر کیے اور برس ہا برس تک تمام دنیا سے شہادتیں جمع کرتارہا۔ اور بتایا کہ ایک خدا کا عقیدہ انتہائی ابتدائی انسانوں میں پایا جاتا رہا ہے اور اس کو پہلی مذہبی صورت کہا جا سکتا ہے۔ بعد کے مصنفین نے یہ اعتراف کرتے ہوئے کہ بہت سے ابتدائی قبائل میں ایک خدا کا تصور پایا جاتا ہے ، یہ کہا کہ تاہم اسی کے ساتھ دوسرے دیوتائوں کا تصور بھی ہے۔ اس طرح ’’ایک خدا‘‘ کا تصور گویا کئی خدائوں کو ماننے ہی کاایک جزء ہے۔

مذہب کے آغاز کے بارے میں پچھلے مفروضوں کے غلط ثابت ہونے کی وجہ سے اب اس میدان میں کام کرنے والے علماء بہت زیادہ محتاط ہو گئے ہیں۔ اب اگر مذہب اتنا ہی پرانا ہے جتنا انسانی غور و فکرکی تاریخ پرانی ہے تو وہ اتنے بعید ماضی سے تعلق رکھتا ہے کہ یہ بظاہر ناممکن ہے کہ اس کے آغاز کی بابت کوئی مسلمہ شہادت مل سکے۔ رومانی محقق (Mircea Eliada) کے الفاظ میں ’’موجودہ زمانہ کے مورخینِ مذہب جانتے ہیں کہ یہ ناممکن ہے کہ مذہب کی ابتدائی شکل کو معلوم کیا جا سکے۔‘‘

ماضی میںمذہب کے محققین کا یہ گمان تھا کہ اگر یہ ثابت کیا جا سکے کہ مذہب کا آغاز کچھ وہمی تصورات سے ہوا تو بعد کی ترقی یافتہ مذہبی شکلوں کو بھی بے بنیاد ثابت کیا جا سکتا ہے۔ مگر اب علمی طور پر اس کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ مذہب کو نفسیاتی فریب (Psychological Illusion) یا سماجی فریب (Sociological Illusion) ثابت کرنے کا خواب بے تعبیر ہو چکا ہے۔ اب یہ ذہن پیدا ہو رہا ہے کہ مذہب ، جیسا کچھ آج ہے اس کو سمجھنے کی کوشش کرنا چاہیے، نہ کہ اس کی ابتدائی صورتوںکو دریافت کرنے کی لاحاصل کوشش میں وقت ضائع کیا جائے۔

مذہبی ارتقاء کی ابتدائی شکل دریافت کرنے کا ذہن ڈارونزم کے بعد پیدا ہوا تھا۔ یہ فرض کر لیا گیا کہ وحشی قبائل جو آج بھی جنگلوں میں پائے جاتے ہیں وہ ’’ابتدائی دور‘‘ کے انسان کی باقیات ہیں اور مہذب سماج میں رہنے والے لوگ ترقی یافتہ دور کے انسان۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ وحشی قبائل میں مذہب کا جو تصور پایا جائے وہ ابتدائی مذہب کو بتا رہا ہے اورمہذب سماج میں جو مذہب ہے وہ مذہب کی ترقی یافتہ شکل کو بتاتا ہے۔ مگر یہ مفروضہ بہت جلدی میں قائم کر لیا گیا جب کہ حقائق اس کی تردید کر رہے تھے۔ مثال کے طور پر ایسے ابتدائی قبائل ہیں جن میں ایک برتر خدا کا عقیدہ موجود ہے جبکہ بدھزم کو ماننے والے بہت سے ترقی یافتہ لوگ خدا کو نہیں مانتے۔

Geoffrey Parrinder, Essay in 'Man and his Gods.

Encyclopedia of the World's Religions, London, 1974

اک طرف علم الانسان نے اس مفروضہ کو مکمل طور پر غلط ثابت کر دیا ہے کہ مذہب انسانی نفسیات یا انسانی سماج کی پیداوار ہے۔ دوسری طرف سائنس، بالفاظ دیگر، علوم قطعیہ کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ ایسی معلومات سامنے آتی جا رہی ہیں۔ اگرچہ براہ راست نہیں تاہم بالواسطہ طور پر، یہ ثابت کر رہی ہیں کہ انسان اور کائنات کی حقیقت کے بارے میں وہی نقطۂ نظر صحیح ہے جو مذہب ہمیں دیتا ہے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom