خارجی ہدایت کی ضرورت
انسان آزاد پیدا ہوا ہے ۔ مگر اس کو نہیں معلوم کہ وہ اپنی آزادی کو کس طرح استعمال کرے۔ کائنات کی غیر ذی روح اشیاء قانون فطرت کے تحت اپنا عمل کر رہی ہیں اور ذی روح اشیاء جبلّت کے تحت۔ ساری معلوم دنیا میں یہ صرف انسان ہے جس کو اپنی زندگی کا نقشہ خود بنانا ہوتا ہے۔ مگر تجربہ بتاتا ہے کہ انسان ، اپنی ساری اعلیٰ صلاحیتوں کے باوجود یہ نہیں جانتا کہ اپنی زندگی کا نقشہ کس طرح بنائے۔ ایک انتہائی مکمل کائنات کے اندر انسان ایک نامکمل وجود ہے۔
کائنات میں کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی ایسی نہیں جو بقیہ کائنات سے الگ ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی زندگی کا نظام بنانے کے لیے پوری کائنات کا علم درکار ہے۔ انسان اس عظیم کائنات کا محض ایک جزوی حصہ ہے مگر اس جزو کو سمجھنا بھی اسی وقت ممکن ہے جب کہ کل کے بارے میں ہم کو پورا علم حاصل ہو چکا ہو۔ تاریخ بتاتی ہے کہ انسان کسی بھی زمانہ میں اس قابل نہ ہو سکا کہ وہ حقائق عالم کا احاطہ کر لے اور اب تو سائنس نے ایک قدم آگے بڑھ کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ اپنی محدود صلاحیتوں کی بنا پر انسان کے لیے اس قسم کا احاطہ ممکن ہی نہیں۔
پانی کا راستہ زمین کے نشیب و فراز سے بن جاتا ہے۔ جانوروں کو ان کی جبلّت ایک متعین راہ پر چلاتی رہتی ہے۔ بالفرض ایسا نہ ہو ، جب بھی ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں۔ کیوں کہ پانی یا جانور فطری طور پر صحیح اور غلط کے احساس سے خالی ہیں۔ ان کی دنیا میں وہی ٹھیک ہے جو بالفعل وقوع میں آ جائے۔ اس کے برعکس انسان کا مطالعہ بتاتا ہے کہ صحیح و غلط ، بالفاظ دیگر اخلاقی احساس اس کی فطرت میں اس طرح پیوست ہے کہ وہ کسی بھی طرح اپنے آپ کو اس سے جدا نہیں کر سکتا۔ مگر آدمی جب اپنے اخلاقی احساس کو خارجی طور پر متعین کرنا چاہتا ہے تو اس کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایسا نہیں کر سکتا۔ انسان اپنے موجودہ حواس کے تحت کسی ایسی ہی چیز کو قطعیت کے ساتھ جان سکتا ہے جو ہماری نسبت سے اپنا کوئی معروضی مقام (objective status) رکھتی ہو۔ جب کہ تجربہ بتاتا ہے کہ انسان ایک ایسی دنیا میں ہے جہاں معروضی اقدار (objective values) کا کوئی وجود نہیں۔
انسان اپنی زندگی کی تشکیل کے لیے جو بھی قدم اٹھاتا ہے، فوراً دو سوال اس کے سامنے آ کھڑے ہو جاتے ہیں — اس کے عمل کا نقطۂ آغاز (starting point) کیا ہو اور یہ کہ اس کے عمل کی حدود (limitations ) کیا ہیں۔ ان دونوں سوالات کے جواب پر ہی اس کے عمل کی صحت موقوف ہے۔ مگر انسان کے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں جس سے وہ ان دونوں سوالات کا ٹھیک ٹھیک جواب معلوم کر سکے۔
مثال کے طور پر عورت مرد کے باہمی تعلق کے مسئلہ کو لیجیے۔ دور جدید کے انسان نے اس معاملہ کا نقطۂ آغاز دونوں جنسوں کے درمیان کلی مساوات کو سمجھا۔ مگر طویل تجربہ کے بعد معلوم ہوا کہ یہاں ایسی حیاتیاتی اور نفسیاتی رکاوٹیں ہیں کہ موجودہ نظام تخلیق کے باقی رہتے ہوئے دونوں کے درمیان کلی مساوات ممکن ہی نہیں۔ اس طرح غلط نقطۂ آغاز سے چلنے کی وجہ سے نہ صرف بیشمار انسانی وسائل ضائع ہو گئے بلکہ ایسے نئے نئے سماجی اور خاندانی مسئلے پیدا ہو گئے جن کا کوئی حل اب انسان کی سمجھ میں نہیں آتا۔
اسی طرح اٹھارویں صدی میں مشینی طاقت کی دریافت کے بعد جب جدید صنعتی نظام وجود میں آیا تو لوگوں نے دیکھا کہ کارخانہ کی ملکیت اب سادہ معنوں میں صرف ملکیت نہیں رہی بلکہ اقتصادی استحصال کے ہم معنی ہو گئی ہے۔ اس سے روایتی افکار کے خلاف بغاوت پیدا ہوئی جو با لآخر یہاں تک پہنچی کہ خود انفرادی ملکیت ہی کو سرے سے منسوخ کر دیا گیا۔ تاہم آباد دنیا کے تقریباً نصف حصہ پر آدھی صدی تک تجربہ کرنے کے بعد آخری بات جو انسان کو معلوم ہوئی وہ یہ کہ تنسیخ ملکیت محض ردعمل کے جذبات کے تحت ایک انتہا پسندانہ کارروائی تھی جس نے دوسرا شدید تر استحصالی نظام وجود میں لانے کے سوا اور کوئی نتیجہ پیدا نہیں کیا۔ اب تمام دنیا کے اہل فکر یہ سوچنے پر مجبور ہو رہے ہیں کہ شاید زیادہ صحیح بات یہ تھی کہ ملکیتوں کی تنسیخ کے بجائے استحصال کی تنسیخ کی جاتی۔
ایک اور مسئلہ ہے جو مذکورہ بالا دونوں مسئلوں سے بھی زیادہ اہم ہے۔ تمام دوسرے حیوانات کے مقابلہ میں انسان کے اندر ایک حیرت انگیز داعیہ یہ ہے کہ وہ کل (tomorrow) کا تصور رکھتا ہے،وہ صرف آج پر قانع نہیں۔ اسی کے ساتھ ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری موجودہ زندگی انتہائی مختصر ہے اور اس کی خوشیاں اور کامیابیاں بے حد معمولی ہیں ۔ جب ہم وہ سب کچھ حاصل کر لیتے ہیں جو ہم چاہتے ہیں تو موت کا وقت قریب آ جاتا ہے۔ حالیہ دورمیں تکنیکی انقلاب کے بعد جب انسان نے دیکھا کہ اس عیش و راحت کے ایسے دروازے کھل گئے ہیں جو پچھلے انسان نے خواب میں بھی نہ دیکھے تھے تو سمجھ لیا گیا کہ بس یہی موجودہ زندگی ہی سب کچھ ہے اور یہاں عزت اور خوشی حاصل کر لینا ہی انسان کی اصل کامیابی ہے۔ مگر انسان ایک صدی بھی اس نئے امکان سے محظوظ نہ ہو سکا تھا کہ نئے نئے مسائل مثلاً صنعت کی پیدا کردہ کثافت (industrial pollution) نے اس کی زندگی کو بالکل تلخ کر دیا۔
ایک طرف ’’اینٹی سائنس‘‘ تحریک مختلف شکلوں میں اٹھ کھڑی ہوئی۔ دوسری طرف نفسیاتی تحقیقات نے یہ ثابت کرنا شروع کیا کہ زندگی ایک ایسا مظہر ہے جو جسمانی موت کے بعد بھی کسی نہ کسی شکل میں باقی رہتا ہے حتیٰ کہ علم الموت (thanatalogy) کے نام سے سائنس کی ایک نئی شاخ وجود میں آ گئی ہے جو اس امکان کی تحقیق میں سرگرم ہے کہ کیا موت اور زندگی دونوں ایک دوسرے کے حصے (parts) ہیں۔ ان واقعات نے دوبارہ انسان کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ اپنے لیے کسی صحیح تر فلسفہ حیات کی تلاش کرے۔
اوپر جن پہلوئوں کی طرف اشارہ کیا گیا ، اس کی صرف دو توجیہیں (explanations) ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ انسان ایک مکمل کائنات کے اندر ایک نامکمل وجود کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ ایسے کائناتی تضاد کی علامت ہے جس کا کوئی حل معلوم دنیا کے اندر ممکن نہیں۔ دوسرے یہ کہ اس تضاد کا بھی حل ہے یا کم از کم ہو سکتا ہے۔ تجرباتی علوم کے پاس دونوں توجیہات میں سے کسی کے حق میں کوئی قطعی ثبوت موجود نہیں۔ تاہم عقلی قیاس یہ کہتا ہے کہ دوسری توجیہ کو صحیح ہونا چاہیے کیوں کہ یہ عظیم کائنات جس طرح قانون فطرت اور جبلّت کے تحت انتہائی منظم طور پر چل رہی ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ بات ناقابل قیاس معلوم ہوتی ہے کہ اس سے کمتر درجہ کے ایک سوال کا جواب اس کے پاس نہ ہو۔ جو تخلیقی قوت عالم افلاک کے مہیب نظام کو گردش دے رہی ہے اور ذی روح اشیاء کی انتہائی پیچیدہ زندگی کو پوری کامیابی کے ساتھ بروئے کار لانے میں مصروف ہے ، وہ اس کے مقابلہ میں ایک بہت چھوٹے مسئلہ کا حل اپنے پاس نہ رکھتی ہو، یہ کسی طرح قابلِ فہم نظر نہیں آتا۔ انسان کے لیے یہ ممکن نہیں کہ بطور خود اپنا فلسفہ حیات دریافت کر سکے۔ مگر خارجی قرائن کہتے ہیں کہ کائنات میں اس انسانی طلب کا انتظام ہونا چاہیے، جس طرح دوسری بے شمار ضرورتوں کا مکمل انتظام اس کے اندر موجود ہے۔
مذہب یہی خارجی ہدایت ہے جو وحی کی صورت میں خدا کی طرف سے آتی ہے۔ انیسویں صدی عیسوی میں یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ مذہب محض ایک سماجی یا نفسیاتی فریب ہے۔ مگر جدید تحقیقات نے ہمیشہ سے زیادہ آج مذہب کی صداقت کو ثابت کر دیا ہے۔