حقیقت کی تلاش
گلیلیو (1564-1642ء) اپنی سادہ دور بین سے چاند کا صرف سامنے کا رخ دیکھ سکتا تھا۔ آج کا انسان خلائی جہاز میں لگے ہوئے دوربینی کیمروں کی مدد سے چاند کا پچھلا رخ بھی پوری طرح دیکھ رہا ہے۔ یہ ایک سادہ سی مثال ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کل اور آج میں علمی اعتبار سے کتنا زیادہ فرق ہو چکا ہے۔
مگر ان جدید معلومات تک پہنچنے کی قیمت بہت مہنگی ہے۔ 10 اکتوبر 1980ء کو نیو میکسیکو میں دنیا کی سب سے بڑی دوربین نصب کی گئی۔ اس کی قیمت 78 ملین ڈالر تھی۔ امریکا کا ایک خلائی جہاز وائیجر جو دسمبر 1980ء میں زحل(Saturn)پر پہنچا اس کی لاگت 340 ملین ڈالر تھی۔ یورپ میں پارٹیکل فزکس کی بین الاقوامی لیبارٹری (Cern) 1981ء میں مکمل ہوئی ہے، اس کا مقصد اینٹی میٹر کو توڑ کر میٹر میں تبدیل کرنا ہے ، اس لیبارٹری کی لاگت 120 ملین ڈالر ہے۔ یہ ادارہ ایک اور زیادہ بڑی تحقیقی مشین تیار کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے جس کی لاگت 550 ملین ڈالر ہو گی۔ پروٹان کی تحقیق کے لیے امریکا میں ایک مشین بنائی گئی ہے جس کی لاگت 275 ملین ڈالر ہے، وغیرہ ۔
پارٹیکل فزنس (ذراتی طبیعیات) میں لوگوں کی بڑھتی ہوئی دلچسپی کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ 1927ء میں ہونے والی فزکس کانفرنس میں 32 سائنس داں شریک ہوئے تھے جب کہ 1980ء میں ہونے والی فزکس کانفرنس میں شریک ہونے والے سائنس دانوں کی تعداد 800 تھی۔ امریکن فزیکل سوسائٹی کے ممبروں کی تعداد 1920ء میں 1300 تھی ، 1980ء میں اس سوسائٹی کے ممبروں کی تعداد 30000 تک پہنچ چکی ہے۔
ان جدید تحقیقاتی کوششوں کا تعلق فلکیات (اسٹرانومی) اور پارٹیکل فزنس (ذراتی طبیعیات) سے ہے۔ ان علوم میں تحقیقات کے نتائج بہت دیر میں نکلتے ہیں۔ تقریباً 50 سال بعد یا اس سے بھی زیادہ۔ اگر اس کا لحاظ کیا جائے کہ ان تحقیقات میں لگی ہوئی رقم (جس پر کوئی سود نہیں ملتا) کی قیمت ہر سال کم ہوتی رہتی ہے تو پچاس سال بعد ایک سو ڈالر کی قیمت صرف ایک ڈالر کے بقدر رہ جائے گی۔ بظاہر ایک بے فائدہ مد میں اتنی کثیر رقم خرچ کرنے کی وجہ سے بہت سے لوگ ایسے منصوبوں پر اعتراض کر رہے ہیں۔ اس کا جواب دیتے ہوئے امریکی پروفیسر راجر پنروز (Roger Penrose) نے کہا ہے:
Do economists not share with us the thrill that accompanies each new piece of understanding? Do they not care to know where we have come from, how we are constituted, or why we are here? Do they ‘not have a drive to understand, quite independent of economic gain? Do they not appreciate the beauty in ideas? —A civilisation that stopped inquiring about the universe might stop inquiring about other things as well. A lot else might then die besides particle physics. (Sunday Weekly, Calcutta, Nov 30, 1980)
کیا اقتصادیات کے ماہرین اس وجد انگیز مسرت میں ہمارے ساتھ شریک نہیں ہیں جو علم کے ہر نئے اضافہ سے حاصل ہوتی ہے۔ کیا ان کو یہ جاننے کا شوق نہیں ہے کہ ہم کہاں سے آئے ہیں ، ہماری پیدائش کیسے ہوئی ہے یا یہ کہ اس زمین پر ہم کیوں ہیں۔ کیا اقتصادی فائدہ سے ہٹ کر ان باتوں کو جاننے کا جذبہ ان کے اندر پیدا نہیں ہوتا۔ کیا وہ نظریات میں حسن کی قیمت کو نہیںسمجھتے۔ کوئی تہذیب جو کائنات کے بارے میں تحقیق سے رک جائے وہ دوسری چیزوں کے بارے میں تحقیق کو بھی روک دے گی۔ اس کے بعد پارٹیکل فزکس کے علاوہ دوسری بہت سی چیزیں بھی موت کا شکار ہو کر رہ جائیں گی۔
اس اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ زندگی کی حقیقت جاننے کا مسئلہ کس قدر ضروری ہے۔ وہ انسان جو خدا کی بنیاد پر کائنات کی تشریح نہیں کرنا چاہتا وہ بھی انتہائی بے تاب ہے کہ وہ کوئی ایسی چیز پا لے جس کی بنیاد پر وہ اپنی اور کائنات کی تشریح کر سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ نظر آنے والی کائنات اور اس کے اندر انسان جیسی ایک مخلوق کا موجود ہونا اس قدر حیران کن ہے کہ انسان اس کی ماہیت کے بارے میں سوچے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کوئی بھی دوسری چیز اس کو اس سوال سے بے نیاز کرنے والی ثابت نہیں ہو سکتی۔ حتیٰ کہ بڑی بڑی مادی ترقیاں بھی۔
انسان دیکھتا ہے کہ وہ ایک لامحدود کائنات میں ہے۔ ا س کائنات میں تقریباً ایک کھرب کہکشائیں ہیں۔ ہر کہکشاں میں لگ بھگ ایک کھرب بہت بڑے بڑے ستارے ہیں۔ اور ہر ستارہ دوسرے ستارے سے اتنا زیادہ فاصلہ پر ہے جیسے بحرالکاہل کے لق و دق سمندر میں چند کشتیاں ایک دوسرے سے بہت دور دور تیر رہی ہوں۔ عظیم کائنات میں پھیلے ہوئے ستاروں کی یہ تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ا گر ہر ستارہ کا کوئی یک لفظی نام رکھا جائے اور کوئی ان ناموں کو بولنا شروع کرے تو صرف تمام ناموں کو دہرانے کے لیے 300 کھرب سال کی مدت درکار ہو گی (پلین ٹرتھ، جنوری 1981ء) ۔
اس ناقابل قیاس حد تک عظیم کائنات میں انسان سب سے زیادہ حقیر مخلوق ہے۔ وہ کائناتی نقشہ میں ان چھوٹےجزیروں سے بھی کم ہے جو بہت چھوٹے ہونے کی وجہ سے عام طور پر دنیا کے نقشوں میں دکھائی نہیں دیتے۔ یہ انسان اپنے تمام چھوٹے پن کے باوجود کائنات کے فاصلوں کو ناپ رہا ہے۔ وہ طبیعیاتی ذروں سے لے کر کہکشانی نظاموں تک کی تحقیق کر رہا ہے۔ وہ ایک ایسا ذہن رکھتا ہے جو ماضی اور مستقبل کا تصور کر سکے۔ یہ سب کیوں ہو رہا ہے اور کیسے ہو رہا ہے اور با لآخر اس عجیب و غریب ڈرامے کا کیا انجام ہونے والا ہے۔ یہ سوالات ہر سوچنے والے انسان کے اوپر منڈلا رہے ہیں۔ وہ ان کی حقیقت تک پہنچنا چاہتا ہے۔ مگر انسان کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ ان سوالات کا جواب دوربینی مشاہدات اور لیبارٹری کے تجربات میں ڈھونڈ رہا ہے۔ حالاں کہ ان سوالات کا جواب پیغمبر کے الہام کے سوا کہیں اور موجود نہیں۔
جس کائنات میں اتنی زیادہ دنیائیں ہوں کہ صرف ان کا نام لینے کے لیے تین سو کھرب سال سے زیادہ مدت درکار ہو، اس کی حقیقت کو وہ انسان کیوں کر دریافت کر سکتا ہے جو پچاس سال یا سو سال زندگی گزار کر مر جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خالق ہی اس راز کو کھول سکتا ہے اور اسی نے پیغمبر کے ذریعہ اس کو کھولا ہے۔
البرٹ آئن سٹائن (1879-1955ء) نے زمان و مکان کے بارے میں جو نظریہ پیش کیا تھا۔ اس نے اس کو غیر معمولی شہرت دی۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آئن سٹائن کی سائنسی قیمت حقیقتہً اس سے کم تھی جتنی اس کو شہرت حاصل ہوئی۔ اس کی وجہ کیا تھی۔ اس کی ایک توجیہہ یہ کی گئی ہے کہ آئن سٹائن کی تحقیقات کا تعلق کائنات کی ابدی حقیقتوں سے تھا اور جو آدمی کائنات کی ابدی حقیقتوں میں جھانکنے کی کوشش کرتا ہے وہ لوگوں کی نظر میں خصوصی اہمیت حاصل کر لیتا ہے۔ ایک مبصر نے لکھا ہے:
Whoever finds that which enables us to obtain a deeper a glimpse into the eternal secrets of nature has been given great grace. That was the grace of Albert Einstein's unique greatness—to try to find such thoughts.
(The Hindustan Times, March 15, 1981)
جو شخص کوئی ایسی دریافت کرتا ہے جو ہم کو اس قابل بنائے کہ ہم فطرت کے رازوں کی کوئی گہری جھلک دیکھ سکیں ، اس کو بہت زیادہ عزت دی جاتی ہے۔ ا لبرٹ آئن سٹائن کو جو خصوصی عزت ملی وہ اسی لیے تھی کہ اس نے اس قسم کے افکار تک پہنچنے کی کوشش کی۔
کائنات کی ابدی حقیقتوں کو جاننے کی خواہش انسان کی فطرت میں اس طرح سمائی ہوئی ہے کہ وہ کسی طرح اپنے کو اس سے الگ نہیں کر سکتا۔ قدیم ترین زمانہ سے انسان فطرت کے ابدی رازوں کی کھوج میں رہا ہے مگر ابھی تک وہ ان کو پا نہ سکا۔ انسان اگر اپنی ذاتی کوششوں سے اس حقیقت تک نہیں پہنچا تو وہ اس کے لیے معذور تھا۔ اس کی محدودیت اس کی راہ میں فیصلہ کن طور پر حائل تھی۔ تاہم سوال یہ ہے کہ قدیم ترین زمانہ سے پیغمبر اس راز سے پردہ ہٹاتے رہے ہیں، پھر تلاش کے باوجود انسان نے کیوں پیغمبروں کے جواب کو نہیں مانا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ پیغمبر کا جواب اپنے ساتھ جزا و سزا اور جنت و جہنم کا تصور لاتا ہے۔ وہ انسان سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ اپنی آزاد زندگی کو ختم کر دے اورزمین پر ایک قسم کی پابند زندگی گزارے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان اپنی تلاش کے پیغمبرانہ جواب کو ماننے پر تیار نہیں ہوتا۔ وہ برابر اس کوشش میں رہتا ہے کہ وہ فطرت کے رازوں کا کوئی ایسا حل دریافت کر لے جو اس کی تلاش کا جواب تو ہو مگر وہ اس کی زندگی پر کوئی پابندی نہ لگائے ، وہ اس کو مستقبل کے اندیشوں میں مبتلا کرنے والا نہ ہو۔ بے شمار لوگ نام نہاد روحانی شخصیتوں کے جواب کو مان لیتے ہیں مگر وہ پیغمبروں کے جواب کو ماننے پر راضی نہیں ہوتے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ روحانی شخصیتوں کے جواب میں صرف روحانی آنند ہے ، اس میں روحانی کھٹک کا کوئی خانہ نہیں۔ جب کہ پیغمبروں کا جواب آدمی سے اس کی آزادی چھین لیتا ہے ، وہ زندگی بھر کے لیے آدمی کو آخرت کے اندیشے میں مبتلا کر دیتا ہے۔
کامیابی کا راز حقیقت سے مطابقت میں ہے، نہ کہ حقیقت سے فرار میں۔ اگر اصل حقیقت وہی ہو جس کی طرف پیغمبروں نے رہنمائی کی ہے تو اس کے سوا کسی اور حقیقت کی تلاش میں لگنا اپنے وقت کو ضائع کرنا ہے۔ جو چیز فی الواقع موجود نہ ہو، اس کو کوئی شخص کہاں سے برآمد کر سکتا ہے۔