ایک واقعہ دو انجام
تیرھویں صدی عیسوی میں جب کہ مسلمان سیاسی طاقت، تمدنی ترقی اور علوم و فنون میں دنیا کی تمام قوموں سے بڑھے ہوئے تھے۔ یورپ نے طے کیا کہ اس کو عربی پڑھنی ہے اور مسلمانوں کے علوم سیکھنے ہیں۔ یہی فیصلہ تھا، جو سولہویں صدی کے اس عظیم واقعہ کا سبب بنا جس کو دنیا یورپ کی نشاۃ ثانیہ (renaissance) کے نام سے جانتی ہے۔ مسلمانوں کے علوم سیکھ کر اور ان میں اضافہ کرکے بالآخر یورپ اتنا طاقت ور ہوگیا کہ نہ صرف مسلمانوں پر بلکہ ساری دنیا پر چھا گیا۔
اس واقعہ کے چار سو برس بعد یہی صورت حال برعکس شکل میں مسلمانوں کے سامنے تھی۔ انھوں نے دیکھا کہ یورپ سیاست و تمدن اور علوم و فنون میں سب سے آگے بڑھ گیا ہے۔ ان کے اندر یہ رحجان ابھرا کہ وہ یورپی زبانیں سیکھیں اور یورپ کے علوم کو حاصل کریں۔ مگر یہاں نتیجہ برعکس نکلا۔ یورپی طرز کی تعلیم نے ہم کو یورپ کاذہنی غلام بنا دیا۔ ہم اپنے علیحدہ قومی وجود کو بھول کر یورپ کے رنگ میں رنگ گئے۔
ایک ہی نوعیت کے دو واقعات میں انجام کا یہ فرق کیوں ہے۔ اس کا جواب ذہنیت کے اس فرق میں ہے جو دونوں جگہ پایا جاتا ہے۔ یورپ نے ہمارے علوم کو اس جذبہ کے تحت سیکھا تھا کہ وہ ہمارے ہتھیاروں سے ہم کو شکست دے سکے۔ اس کے برعکس، ہم یورپی علوم کی طرف اس لیے بڑھے کہ ہم اس کے نقال بن کر اس کی نظروں میں باعزت ہو جائیں اور جہاں ذہنیت میں اس قسم کا فرق پایا جائے وہاں انجام میں فرق پایا جانا لازمی ہے۔
مسلمانوں کو ایک ہزار سال تک دنیا میں وہی حیثیت حاصل رہی ہے جو آج روس یا امریکا کو حاصل ہے۔ اس وقت جب کہ یورپ پر ابھی قرون مظلمہ(Dark Ages) کا اندھیرا چھایا ہوا تھا، عرب مسلمان ایک شان دار تہذیب کووجود میں لا چکے تھے۔ اور اپنی تحقیقات اور یونانی اور دوسرے علوم کے ترجموں کی مدد سے سائنس اور فلسفہ میں دنیا کی امامت کر رہے تھے، اس وقت مسلمان ساری دنیا میں علم اور تہذیب کے تنہا مالک تھے۔ عربی زبان دنیا کی واحد علمی زبان تھی اور ساری دنیا کے لوگ علوم و فنون کے اکتساب کے لیے مسلم مرکزوں(دمشق، بغداد، قرطبہ، غرناطہ) کا اسی طرح سفر کرتے تھے جیسے آج لوگ اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ اور امریکا کے شہروں میں جاتے ہیں۔
بارہویں اور تیرہویں صدی میں جب کہ مسلمانوں کی طاقت عروج پر تھی اور وہ عرب سے بڑھتے بڑھتے فرانس تک پہنچ گئے تھے، اس وقت یورپ نے مسلمانوں کے خلاف اپنی شدید ترین جنگ چھیڑ دی اور گیارہویں صدی کے آخر(1096ء) سے لے کر تیرھویں صدی کے آخر تک دو سوبرس پورا یورپ مسلمانوں کے خلاف خوفناک جنگ لڑتا رہا۔ یہ جنگ جو صلیبی لڑائیوں(Crusades) کے نام سے مشہور ہے، بالآخر یورپ کی مکمل ناکامی پر ختم ہوئی۔
مگر یورپ نے ہمت نہیں ہاری۔ اب اس کے اندر ایک نیا رحجان ابھر۔ا صلیبی جنگوں کے درمیان اہل یورپ کو تجربہ ہوگیا تھا کہ مسلمان علم اور سائنس میںان سے بہت آگے ہیں۔ اس وقت کا تصورکیجیے جب مصری فوج نےمنجنیقوںکے ذریعہ فرانسیسی لشکر پر آگ کے بان پھینکنا شروع کیے۔ یہ بان جب منجنیقوں سے نکل کر دشمن کی طرف بڑھتے تو ایسا نظر آتا جیسے بڑے بڑے آتشیں اژدہے ہوا میں اُڑ رہے ہوں۔ فرانسیسی، جن کے پاس اس وقت پرانے دستی ہتھیاروں کے سوا اور کچھ نہ تھا، ان کے لیے یہ بان ایسے ہی بھیانک تھے جیسے آج کسی پس ماندہ اور بے سروسامان ملک پر جدید ترین راکٹوں کے ذریعہ حملہ کر دیا جائے۔ اسی طرح مسلمان تہذیب و تمدن کے تمام پہلوئوں میں نمایاں طور پر اہل یورپ سے بڑھے ہوئے تھے۔ چنانچہ صلیبی جنگوں کے ناکام تجربہ کے بعد یورپ نے فیصلہ کیا کہ مسلمانوں کو شکست دینے کے لیے اب اس کو دوسرے قسم کی جنگ چھیڑنی ہے، اور وہ یہ کہ مسلمان کے ہنر اور ان کے علوم کو سیکھ کر انہیں کے ہتھیاروں سے انہیں شکست دی جائے۔
اب ایک طرف یورپ کے مذہبی طبقہ نے روحانی صلیبی جنگ(Spiritual Crusades) کا نعرہ دیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ مسلمانوں کے مذہبی علوم کو سیکھا جائے، اور مسلمانوں کی تاریخ اور ان کے عقائد کو اس طرح بگاڑ کر پیش کیا جائے کہ مسلمان اپنے دین سے متنفر ہو جائیں اور عیسائیت قبول کر لیں تاکہ وہ قوم جس کو فوجی میدان میں شکست نہیں دی جا سکی ہے، اس کو عددی حیثیت سے کمزور کرکے مغلوب کیا جا سکے۔ عیسائی مشنری تحریک پہلی بار صلیبی جنگوں کے زمانے میں شروع ہوئی۔ پہلا شخص جس نے 1154ء میں مائونٹ کارمل پر مشنری نظام قائم کیا وہ ایک صلیبی ہی تھا۔ بعد کو فرانسس بیکن(1219ء) نے اس کی پیروی کی۔ یہ مشنری تحریک آج ساری دنیا میں سب سے زیادہ طاقتور تبلیغی ادارہ کی حیثیت سے کام کر رہی ہے۔ اس کی کوششیں اس حد تک کامیاب ہوئی ہیں کہ ساری دنیا کا لٹریچر اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں غلط قسم کی باتوں سے بھر گیا ہے۔
دوسری طرف یہ ہوا کہ اہلِ یورپ کے درمیان مسلمانوں کا فلسفہ و سائنس اور ان کے علوم و فنون سیکھنے کی تحریک زور شور سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ یورپ کی درسگاہوں میں عربی زبان پڑھانے کا انتظام کیا گیا۔ مسلمانوں کی تصنیفات کے ترجمے یورپ کی زبانوں میں کیے جانے لگے۔ یورپ کے طلبہ مسلم شہروں میں تحصیل علم کے لیے جانا شروع ہوئے۔
جنگ کی یہ نئی تکنیک اختیار کرنے کی وجہ سے یورپ کو اندرونی طور پر مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس وقت یورپ کے قدامت پسند حلقوں میں عربی زبان کی توسیع کی حوصلہ افزائی کے سلسلہ میں ناراضگی پائی جاتی تھی جس کی وجہ خاص طور پر یہ اندیشہ تھا کہ عربی سیکھنے سے عیسائیوں کے درمیان اسلامی خیالات پھیلنا شروع ہو جائیں گے۔ مثال کے طور پر فرانسس کن راہب راجر بیکن (1214-1294ء) جو اپنے وقت کا مشہور انگلستانی عالم تھا، اس نے جب عربی زبان کی اہمیت پر زور دیا تو آکسفورڈ کے علماء چلا اٹھے’’بیکن مسلمان(Saracen) ہوگیا۔‘‘
مگر اس طرح کی مخالفتوں کے باوجود مسلمان کی زبان اور ان کے علوم سیکھنے کا رحجان بڑھتا رہا۔ مسلم محققین کے حاصل کو لے کر یورپ نے اپنی کوشش سے اس میں اضافے کیے اور اتنی ترقی کی کہ تاریخ میں پہلی بارقوت کا معیار بدل دیا اور بالآخر مسلمانوں کو ہر میدان میں شکست دے کر علم و عمل کی پوری دنیا کا مالک بن گیا۔ جدید مورخین نے تقریباً متفقہ طو پر تسلیم کیا ہے کہ یورپ کی نشاۃ ثانیہ کا اہم ترین محرک وہ علوم تھے جو مسلمانوں کی معرفت یورپ تک پہنچے(ویسٹرن سویلائزیشن، اڈورڈ میکنال برن)۔
اس کے پانچ سو برس بعد تاریخ دوسرا منظر دیکھتی ہے۔ یورپ کی ترقی اور عروج سے متاثر ہو کر مسلمانوں کے اندر یہ رحجان ابھرا کہ وہ یورپ کے علوم و فنون کو سیکھیں۔ مگر یہاں اس رحجان کا محرک اس سے بالکل مختلف تھا جو یورپ کی تاریخ میں ہمیں نظر آتا ہے۔ سر سید احمد خان (1817-1898ء) جو پروفیسر گب کے الفاظ میں اسلام میں پہلی جدت پسند تنظیم (modernist organisation) کے بانی تھے۔ انہوں نے 1875ء میں علیگڑھ کالج قائم کیا اور اس پر اپنی ساری زندگی وقف کر دی۔ یہاں تک کہ1930ء میں وہ یونیورسٹی بن گیا، وہ یورپی طرز کی تعلیم کے زبردست حامی تھے۔ ان کا مقصد اس تعلیم سے کیا تھا اس کی ترجمانی ان کے رفیق خاص مولانا حالی نے ان الفاظ میں کی ہے:
’’حالی اب آئو پیرویٔ مغربی کریں‘‘
سرسید نے جب انگلستان سے واپس آ کر دسمبر1870ء میں تہذیب الاخلاق نکالنا شروع کیا تو انہوں نے پہلے پرچہ کے شروع میں لکھا:
’’اس پرچہ کے اجراء سے مقصد یہ ہے کہ ہندستان کے مسلمانوں کو کامل درجہ کی سویلائزیشن یعنی تہذیب اختیار کرنے پر راغب کیا جائے تاکہ جس حقارت سے سویلائزڈ یعنی مہذب قومیں ان کو دیکھتی ہیں وہ رفع ہو اور وہ بھی دنیا میں معززو مہذب قوم کہلائیں۔‘‘
سر سید جب ترقی کا تصور کرتے تو ان کے ذہن میں’’زرق برق وردیاں پہنے کرنل اور میجر بنے ہوئے مسلمان نوجوان‘‘ ہوتے تھے۔ ان کا منتہائے مقصود ایسی تعلیم تھی جو مسلمانوں کو اعلیٰ عہدوں تک پہنچا سکے۔ سر سید کی تہذیب کو مہدی افادی نے بجا طور پر’’اینگلو محمڈن کلچر‘‘ کا نام دیا ہے۔
کمال اتاترک(1881-1938ء) جو اس گروہ کا دوسرا نمایاں ترین نام ہے، وہ اس معاملے میں سر سید سے بھی آگے تھے۔ ترکی میں مغربی تعلیم و تہذیب کی اشاعت سے کمال اتاترک کا مقصد کیا تھا، اس کا اندازہ اس عنوان سے ہوتاہے جو اس مہم کووہاں دیا گیا۔ کمال اتاترک اور ان کے ساتھیوں کے نزدیک یہ’’غرب دوغرو‘‘ تھا، جس کے معنی ترکی زبان میں—’’ سمت مغرب میں سفر‘‘ کے ہیں۔ سمت مغرب میں سفر کا یہ کام اس درجہ اہم تھا کہ صرف رومن رسم الخط جاری کرنے اور ترکی باشندوں کو ہیٹ پہنانے کے لیے ہزاروں آدمی اس طرح ہلاک کر دیے گئے گویا وہ ریاست سے بغاوت کے مجرم ہوں۔
اسی تقلیدی ذہنیت کا نتیجہ تھا کہ ہمارے ان مصلحین کی ساری توجہ بس یورپ کی تہذیب اور یورپ کے زبان و ادب کے حصول پر لگی رہی۔ سائنس اور ٹیکنالوجی جو مغربی قوموں کی ترقی کا اصل راز ہے، اس کو مسلمانوں کے اندر رائج کرنے کی انہوں نے زیادہ کوشش نہیں کی۔ سر سید نے تو صراحۃً مسلمانوں کے لیے ٹیکنیکل ایجوکیشن کی مخالفت کی اور’’اعلیٰ درجہ کی دماغی تعلیم‘‘ کو سب سے مقدم قرار دیا۔ یہی اس زمانہ میں تعلیم جدید کے حامیوں کا عام نقطہ نظر تھا۔ ان حضرات نے ساری توجہ صرف اس پر دی کہ ایک ایسا گروہ پیدا ہو جائے جو مغربی تمدن اور یورپی ادب میں کمال حاصل کیے ہوئے ہو۔ کمال اتاترک کا نام نہاد انقلاب اور روس کے اشتراکی انقلاب میں صرف چند سال کا فرق ہے۔ مگر حیرت انگیز بات ہے کہ روس آج خلائی دور میں داخل ہو چکا ہے اور ترکی ابھی تک زمین پر بھی مستحکم مقام حاصل نہ کر سکا۔
یورپ جس ذہن کے تحت ہمارے علوم کی طرف بڑھا وہ یہ تھا کہ مسلمانوں سے ان کے علوم اور ان کے ہنر کو لے کر اس کے ذریعہ سے انہیں شکست دی جائے۔ ان چیزوں کو اس نے وقت کی طاقت سمجھا اور اس کو اپنے دشمن کے مقابلے میں استعمال کیا۔ چنانچہ اپنی اس مہم کو یورپ نے’’تقلید مشرق‘‘ یا’’تقلید مسلم‘‘ کا نام نہیں دیا بلکہ اس کو روحانی صلیبی جنگ (spiritual crusades) کہا، جس کا مطلب یہ تھا کہ صلیبی لڑائیوں کی ہاری ہوئی بازی کو نئی تکنیک سے کامیاب بنایا جائے اور جب اس کوشش سے وہ اپنے کو ایک نئے انقلاب تک پہنچانے میں کامیاب ہوگئے تو اس کو انہوں نے یہ حیثیت دی گویا انہوں نے خود اپنی کھوئی ہوئی حیثیت دوبارہ حاصل کی ہے۔ چنانچہ یورپ میں اس نئے انقلاب کا تاریخی نام نشاۃ ثانیہ (renaissance) رکھا گیا ہے۔ یہ فرانسیسی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے— نیا جنم(rebirth) ۔گویا یہ کوئی غیر سے حاصل کی ہوئی چیز نہیں ہے، بلکہ یہ یورپ کی اپنی ہی متاع ہے جو اس نے دوبارہ پائی ہے۔ یورپ نے لیتے وقت اگرچہ ان علوم کو مسلمانوں سے لیا تھا۔ مگر اس نے حال کی کڑی کو حذف کرکے اس کا رشتہ ماضی سے ملایا اور اس کو مغرب کے ایک ملک— یونان — کی چیز قرار دے کر اس کو نشاۃ ثانیہ کہا۔ اس کے برعکس، ہم نے ایسا نہیں کیا، حالانکہ یورپ جو چیز ہمیں دے رہا تھا وہ اضافہ شدہ حالت میں وہی سرمایہ تھا جو یورپ کو ہم نے عطا کیا تھا۔ مسلمان مغربی علوم کی طرف خالص تقلید ذہن کے ساتھ بڑھے ان کا یہ عمل سر سید کے یہاں ’’پیروی مغرب‘‘ اور اتاترک کے یہاں’’غرب دوغرو‘‘ کے ہم معنی تھا۔ ذہنیت کے اس فرق کا لازمی نتیجہ یہ ہونا تھا کہ یورپ ہمارے علوم کو سیکھ کر ہمیں شکست دے اور اس کے برعکس ہم مغرب کے علوم کو سیکھ کر صرف مغرب کے بھونڈے نقال بن کر رہ جائیں۔
مصطفیٰ کمال کی تحریک کا آخری نشانہ یہ تھا کہ ترک قوم ہیٹ اور پتلون پہننے لگے۔ اور سر سید کا منتہائے نظریہ تھا کہ مسلم نوجوان مغربی ادبیات میں کمال حاصل کرلیں۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کے ذہن کے تحت مغرب کی طرف بڑھنے کا وہی نتیجہ برآمد ہو سکتا تھا جو عملاً برآمد ہوا۔
یہ تاریخ جہاں ایک طرف ہماری غلطی کو بتاتی ہے وہیں اس کے اندر اس کا بھی نشان ہے کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ ہمیں وہی کرنا چاہیے جو مغربی قوموں نے ہمارے ساتھ کیا۔ مغربی علوم کو اس لیے سیکھنا تاکہ اس کے ذریعہ مغربی تہذیب کو شکست دے کر اسلام کو غالب کیاجائے۔ اگر ہمارے اندر یہ ذہن پیدا ہو جائے تو وہی نتیجہ برعکس شکل میں ظاہر ہوگا جو مغربی قوموں کے لیے ہمارے مقابلے میں ظاہر ہوا تھا۔