پیغمبر کی تمثیل
’’ہم لندن سے بول رہے ہیں، اب آپ آج کی تازہ خبریں سنیے۔‘‘ یہ الفاظ ایک شخص ہم سے دور لندن میں بیٹھ کر بولتا ہے۔ ہم اس کو براہ راست نہیں سن پاتے۔ لیکن جب ہم اپنا ریڈیوسٹ چلاتے ہیں تو ہم فوراً اس آواز کو سننے لگتے ہیں۔
دور کا ایک ریڈیو اسٹیشن ہماری قابل فہم زبان میں ہمارے لیے پروگرام نشر کرتا ہے، ہم اس کو براہ راست اپنے کان سے نہیں سن پاتے۔ لیکن جب ہم ریڈیوسٹ کا سہارا لیتے ہیں تو ہزاروں میل دور سے نشر ہونے والا پروگرام ہم کو اس طرح سنائی دینے لگتا ہے جیسے کہ ہمارے اور نشر گاہ کے درمیان کا فاصلہ ختم ہوگیا ہو اور ہم براہ راست اس کو سننے لگے ہوں۔
ایسا ہی کچھ معاملہ بلاتشبیہ پیغمبر کا بھی ہے۔ پیغمبر گویا ہمارے لیے ایک قسم کا ریڈیوسٹ ہے۔ وہ ہمارے اور خدائی نشرگاہ کے درمیان یقینی واسطہ کا کام کرتاہے۔ جس طرح عام ریڈیو یا ٹرانسسٹر یہ کرتا ہے کہ نشر گاہ کی خبریں اور پروگرام وصول کرکے دوبارہ ہمیں سناتا ہے۔ اسی طرح خدا پیغمبر کو یہ طاقت دے دیتا ہے کہ وہ خداکی طرف سے آنے والی آوازوں کو اخذ کر سکے۔ پیغمبر خدا کی خصوصی توفیق سے ان کونہایت صحت کے ساتھ اخذ کرتا ہے اور پھر کسی حذف و اضافہ کے بغیر ان کو ہمیں سنا دیتا ہے۔
پیغمبر انسان اور خدا کے درمیان ایک زندہ ریڈیوسٹ ہے۔ اگر پیغمبر نہ ہو تو ہم خدا کی آوازوں کو نہ سن سکیں۔ ٹھیک ویسے ہی جیسے مشینی ریڈیوسٹ کے بغیر کوئی شخص دور کی نشرگاہوں سے نشر ہونے والے پروگرام کو نہیں سن پاتا۔ لوگ دنیوی نشر گاہوں کی نشریات کو سننا چاہتے ہیں۔ اس لیے وہ ریڈیو اور ٹرانسسٹر کو بے حد عزیز رکھتے ہیں۔ آج ساری دنیا میں کوئی بھی گھر اس سے خالی نہیں۔ اسی طرح اگر آدمی کو خدائی نشریات کی اہمیت معلوم ہو جائے تو وہ پیغمبر کو دل و جان سے چاہنے لگے۔ وہ ان باتوں کو انتہائی توجہ اور اہتمام کے ساتھ سنے جو پیغمبر نے بتائی ہیں۔
پیغمبر کے معاملہ کو سمجھنا اتنا ہی آسان ہے جتنا ریڈیو کے معاملہ کو سمجھنا۔ پیغمبر اسی قسم کے ایک کام کو الہامی طور پر کر رہا ہے جس کو عام ریڈیوسٹ مشینی طور پر انجام دیتا ہے۔