وضعی قانون اور الٰہی قانون
راسکو پائونڈ(1870-1964ء Roscoe Pound) نے قانون کا مقصد سماجی انجینئرنگ (social engineering) بتایا ہے۔ یہ بیان یقیناً صحیح ہوتا بشرطیکہ پائونڈ یہ بھی ثابت کر سکتا کہ انسانی سماج کمپیوٹروں کا ایک مجموعہ ہے۔ مگر بدقسمتی سے امریکی پروفیسر کے لیے یہ ثابت کرنا ممکن نہیں۔ اور یہی وہ مقام ہے جہاں وضعی قانون کی اس کمزوری کا راز چھپا ہوا ہے جس کی بنا پر وہ ڈھائی ہزار سالہ کوششوں کی تاریخ رکھنے کے باوجود اب تک اپنا کوئی قابل قبول اصول قانون دریافت نہ کر سکا۔
ایک شخص جب اصول قانون کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کے سامنے تقریباً ایک درجن بڑے بڑے اسکولوں کے نام آتے ہیں۔ مگر فنی تفصیلات سے قطع نظر کرکے دیکھا جائے تو ان مدارس فکر کو اصولی طور پردو قسموں میں بانٹا جا سکتا ہے۔ ایک، نظریاتی اصول قانون (ideological jurisprudence) جو اس تلاش میں مصروف ہے کہ’’قانون کو کیسا ہونا چاہیے‘‘(law as it ought to be) دوسرے، تحلیلی اصول قانون (analytical jurisprudence) جو قانون کی تعبیر ویسی ہی کرنا چاہتا ہے’’جیسا کہ وہ ہے‘‘(law as it is) اصول قانون کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ دونوں قسم کے اسکول کسی قابل قبول نتیجہ تک پہنچنے میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں۔ علمائے قانون جب قانون کی تشریح ثانی الذکر اصول کی روشنی میں کرتے ہیں تو انھیں اس تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ قانون کا منطقی جواز ان کے ہاتھ سے نکل گیا اور جب اول الذکر اصول کی روشنی میں قانون کو سمجھنا چاہتے ہیں تو معلو م ہوتا ہے کہ ایسی کسی چیز کی دریافت ممکن ہی نہیں۔
ایک طرف وہ علمائے قانون ہیں جو قانون کو محض اس نظر سے دیکھتے ہیں کہ وہ انسانی سماج کا ایک خارجی ڈھانچہ ہے، اس لیے اس کو معلوم قواعد و ضوابط کی روشنی میں ٹھیک اسی طرح بنایا جا سکتا ہے جیسے عجائب خانہ میں جانوروں کے لیے کٹہرا بنایا جاتا ہے۔ اسی نقطہ نظر کی ایک وکالت جان آسٹن(1790-1859ء) کا مشہور نظریہ تھا جس میں اس نے کہا:
Law is what is imposed by a superior on an inferior, be that superior the king or the legislature.
یعنی قانون ان احکام کا نام ہے جو سیاسی طور پر اعلیٰ ہستی کی طرف سے سیاسی طور پر ادنیٰ ہستی کے اوپر نافذ کیا گیا ہو، یہ اعلیٰ ہستی خواہ بادشاہ ہو یا مقننہ۔
جان آسٹن(john Austin) کا یہ نظریہ بظاہر ایک قابل عمل نظریہ ہونے کے باوجود منطقی صحت سے مکمل طور پر محرو م ہے۔ کیوں کہ یہ قانون ساز کو یہ مقام دے دیتا ہے کہ اس کا عمل انصاف کے معیاروں سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ حالانکہ انسانی عقل کبھی اس کو قبول نہیں کر سکتی کہ انصاف (justice) کے تصور کو قانون سے الگ کر دیا جائے۔ قانون جب کسی کے اوپر ایک فیصلہ کا نفاذ کرتا ہے تو اس کا یہ فیصلہ اسی وقت جائز فیصلہ ہے جب کہ وہ انصاف پر مبنی ہو۔
تاہم آج تمام دنیا میں، عملی طور پر، جان آسٹن ہی کے نظریہ کی حکمرانی ہے۔ نام نہاد آزاد دنیا میں یہ کام بغیر کسی اصول قانون کے ہو رہا ہے۔ ایک فرانسیسی قانون داں نے جو بات اپنی حکومت کے بارے میں کہی ہے، وہی دوسری تمام حکومتوں پر بھی صادق آتی ہے:
Our government has the power but not the right.
ہماری حکومت کے پاس قانون کے نفاذ کے لیے طاقت ہے مگر اس کا اسے کوئی حق نہیں۔
اشتراکی دنیا میں یہ جبری منطق اس سوویت اصول قانون کے تحت نافذ ہے کہ اشتراکی یا سماجی تعلقات (social relationships) ہی کا دوسرا نام قانون ہے۔ اشتراکی دنیا میں چونکہ علمی تحقیق بھی سیاست ہی کا ایک حصہ ہے، اس لیے باہر کی دنیا کے مفکرین کی اس تنقید کا اس پر کوئی اثر نہیں پڑتا کہ قانون کی یہ سوشلسٹ تفسیر قانون کے معیاری کردار (normative character) کا انکار کر رہی ہے اور قانون کو گھٹا کر صرف اقتصادی قانون بنا دیتی ہے:
It reduces law to economic law.
اگر چہ عملی طور پر ساری دنیا میں یہی صورت حال ہے کہ سیاسی طاقت کے زور پر قوانین بنتے ہیں اور رائج کیے جاتے ہیں۔ مگر علمائے قانون کا ایک طبقہ اس سے بے نیا ز ہو کر اصول قانون کی علمی تلاش میں مصروف ہے۔ تاہم اس کی اب تک کی تلاش نے اس کو صرف اس نتیجہ تک پہنچایا ہے کہ اصول قانون کے معاملہ میں کسی متفقہ معیار تک پہنچنا ممکن نہیں۔ کیوں کہ اس تلاش کا مقصد قانونی معیارات (legal norms) کا تعین ہے، اور قانونی معیارات کا تعین اسی وقت ہو سکتا ہے جب کہ بنیادی انسانی اقدار کا تعین ہو جائے۔ اور تمام علماء کا فیصلہ ہے کہ اقتدار(values) کی دریافت خالص عقلی طریقوں سے ممکن نہیں۔
اصول قانون کا مقصد قانون کی فلسفیانہ بنیاد(Philosophical Foundation) یا اس کی قانونی قدر (legal value) تلاش کرنا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اصول قانون کا کام یہ ہے کہ وہ قانون کے لیے وجہ جواز(justification) فراہم کرے۔ جب تک کوئی قانون اپنی پشت پر قابل قبول اصول قانون نہ رکھتا ہو، عقلاً جائز نہیں کہ وہ ان انسانوں کے اوپر نافذ کیا جائے جن کے لیے کسی چیز کی قدر و قیمت جاننے کا واحد معیار عقل ہے۔ چنانچہ معلوم تاریخ کے مطابق انسان ڈھائی ہزار سال سے اس تلاش و جستجو میں مصروف ہے، مگر بے شمار دماغوں کی جدوجہد کے باوجود اب تک وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکا۔
قانون کی تاریخ بتاتی ہے کہ جب انسان لکھنا نہیں جانتا تھا، اس وقت بھی قانون کسی نہ کسی شکل میں موجود تھا۔ تحریر کی دریافت کے بعد اس کو لکھا بھی جانے لگا۔ سب سے قدیم تحریری قانون جو مل سکا ہے، وہ سمیری بادشاہ حمورابی کا قانون ہے جو 1900 ق م میں وضع ہوا تھا۔ سمیری قوم دجلہ و فرات کی وادی میں رہتی تھی۔
اصول قانون پر غور و فکر کا کام، تاریخی ریکارڈ کے مطابق، یونانی فلاسفہ سے شروع ہوا۔ سولن جو قدیم یونان کا مشہور قانون داں تھا، اس کا زمانہ مسیح سے چھ سو سال قبل کا ہے۔ افلاطون (427-347 ق م) کی کتاب قانون پر قدیم زمانہ کی مشہور ترین کتاب ہے۔ قانونی پیشہ بھی سب سے پہلے روم میں مسیح سے تقریباً پانچ سو سال قبل شروع ہوا۔ پندرھویں صدی تک قانون علم الٰہیات ہی کا ایک جزء سمجھا جاتا تھا۔ سولھویں صدی میں وہ نیا ذہن پیدا ہوا جس نے بالآخر قانون کو مذہب سے الگ کر دیا۔ تاہم اب بھی وہ علم سیاست کا ایک جزء بنا رہا۔ انیسویں صدی کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس نے فلسفہ قانون کو فلسفہ سیاست سے الگ کیا اور اصول قانون کو ایک مستقل علم کی حیثیت سے ترقی دے کر اس کو اختصاصی مطالعہ کا موضوع بنا دیا۔
قدیم زمانہ کے فلاسفہ کچھ مسلمات سے اپنا اصول قانون اخذ کرتے تھے جن کو وہ فطری حقوق کہتے تھے۔ سولھویں صدی کے بعد یورپ میں جو ذہنی انقلاب آیا، اس نے ثابت کیا کہ یہ مسلمات حقیقۃً مفروضات ہیں جن کے لیے کوئی عقلی دلیل موجود نہیں۔ اس کے بعد فرد کی آزادی سب سے بڑا مسلمہ قرار پائی جس کو اصول قانون کی بنیاد بنایا جا سکتا تھا۔ مگر صنعتی انقلاب کے نتائج نے بتایا کہ فرد کی آزادی کو اگر خیر اعلیٰ(summum bonum) مان لیا جائے تو وہ انسانیت کو استحصال اور انارکی کے سوا اور کہیں نہیں پہنچاتی۔ اب اجتماعی بھلائی(social good) کو سب سے بڑا خیر قرار دیا گیا جو قانون سازی کے لیے رہنما اصول کی حیثیت رکھتی تھی۔ مگر جب اس نظریہ کے پہلے ہی استعمال سے ایک ہولناک سیاسی جبروجود میں آیا تو معلوم ہوا کہ فرد کی آزادی اگر سماج کے لیے نقصان دہ تھی تو سماجی بھلائی کا یہ نظریہ فرد کو مجبور و مقہور بنا کر رکھ دیتا ہے۔ بیسویں صدی فرد اور سماج کے درمیان مطابقت تلاش کرنے کی صدی ہے۔ موجودہ صدی کے نصف ثانی میں جن مدارس فکر کو قبولیت حاصل ہوئی، ان کا خلاصہ یہ تھا کہ وہ کسی نہ کسی طور پر قانون کی ایسی بنیاد ڈھونڈ رہے تھے جہاں فرد اور سماج کے مختلف تقاضوں کو ہم آہنگ کیا جا سکے۔ مگر یہ تجربہ بھی ناکامی کے سوا کہیں اور پہنچتا ہوا نظر نہیں آتا۔ آج بھی ایسی کتابیں شائع ہو رہی ہیں جن کا ٹائٹل اس قسم کا ہوتا ہے— قانون خود اپنی تلاش میں:
Law in Quest of ltself.
حتیٰ کہ علمائے قانون کے ایک طبقہ نے اپنا یہ آخری فیصلہ دے دیا ہے کہ ایسی کسی کوشش کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں:
A purely logical interpretation of legal rules is impossible.
قانونی احکام کی خالص منطقی تعبیر ناممکن ہے۔ گسٹاوریڈبرش(1878-1949ء) کا کہنا ہے کہ مطلوبہ قانون صرف بذریعہ اقرار(confession) اپنایا جا سکتا ہے، نہ اس لیے کہ وہ علمی طور پر معلوم(scientifically known) ہے۔ ریڈبرش(Gustav Radbruch) کی مثال کوئی انفرادی مثال نہیں، بلکہ اسی بنیاد پر ایک مستقل مدرسۂ فکر وجود میں آیا ہے جس کو اضافی مدرسۂ فکر کہتے ہیں۔ اس فکر کے حاملین(relativists) کا کہنا ہے:
Absolute judgements about law are not discoverable.
یعنی، مطلق قانون قابل دریافت نہیں۔
جیسا کہ عرض کیا گیا، اصول قانون کی اصل مشکل یہ ہے کہ وہ جس چیز کی تلاش میں ہے، اس کا براہ راست تعلق مسئلہ اقدار سے ہے اور یہ مسئلہ وہ ہے جہاں انسانی عقل اپنی ساری کوشش کے باوجود کسی متفقہ جواب تک پہنچنے میں قطعاً ناکام رہی ہے۔ ایک طرف یہ صورت ہے کہ انسان، وجدانی طور پر،خیر و شر کا اتنا شدید احساس رکھتا ہے کہ اس کو نہ تو اٹھارویں صدی کے میکانکی فلسفے ختم کر سکے اور نہ سوویت روس کا کلیت پسندانہ نظام، جس کو نصف صدی سے بھی زیادہ طویل عرصہ تک یہ موقع ملا کہ وہ نسل انسانی کو اپنے نظریاتی کارخانہ میں ڈھال سکے۔ دوسری طرف یہ مشکل کہ بہترین دماغوں کی ساری کوشش بھی اقدار کا کوئی متفقہ معیار تلاش کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ سائنس کی ترقی اس کو زیادہ سے زیادہ واضح کرتی جا رہی ہے کہ ہم ایک ایسی دنیا میں ہیں جہاں اقدار اپنا کوئی معروضی مقام(objective status) نہیں رکھتیں۔
جوزف وڈ کرچ(1893-1970) نے اپنی کثیر الاشاعت کتاب(The Modern Temper) میں اس کا مطالعہ کیا ہے۔’’خواہ انسان کتنی ہی کوشش کرے‘‘ پروفیسر کرچ(joseph Woodkrutch) لکھتے ہیں’’اس کی روح کے دو نصف مشکل ہی سے باہم متحد ہو سکتے ہیں۔ اور وہ نہیں جانتا کہ وہ اس طرح خیال کرے جیسے کہ اس کی عقل بتاتی ہے کہ اسے خیال کرنا چاہیے، یا وہ اس طرح محسوس کرے جیسے اس کے جذبات اس کو محسوس کراتے ہیں۔ اور اس طرح وہ اپنی برباد اور تقسیم شدہ روح کے اندر ایک مضحکہ بن کر رہ گیا ہے‘‘۔
کرچ کا یہ جملہ اکثر نقل کیا گیا ہے— انسان ایک اخلاقی جانور ہے ایک ایسی کائنات میں جو اپنے اندر کوئی اخلاقی عنصر نہیں رکھتی۔:
Man is an ethical animal in a universe which contains no ethical element. p.16
کرچ کی غلطی یہ ہے کہ اس نے اپنے دائرہ سے باہر قدم رکھ دیا ہے۔ میں جس بنیادی نکتہ پر زور دینا چاہتا ہوں، وہ یہ کہ جو چیز ثابت ہوئی ہے، وہ یہ نہیں کہ اقدار کا کوئی وجود نہیں ہے۔ بلکہ یہ کہ انسان ان کو دریافت نہیں کر سکتا۔ یہاں میں ڈاکٹر الکسس کیرل (1873-1944ء) کا حوالہ دوں گا۔ ڈاکٹر کیرل (Alexis Carrel) نے اپنی کتاب انسان نامعلوم (Man The Unknown) میں دکھایا ہے کہ اقدار کا مسئلہ اتنے مختلف النوع علوم کی کامل واقفیت سے تعلق رکھتا ہے جن کو انسان اپنی محدود عمر میں کسی طرح حاصل نہیں کر سکتا۔ ان کو حاصل کرکے ان کا تجزیہ کرنا اور نتیجہ نکالنا تو درکنار۔ انھوں نے مزید اس بات کو رد کر دیا ہے کہ ماہرین کی ایک کمیٹی اس مسئلہ کی تحقیق کرکے کسی آخری نتیجہ پر پہنچنے کی کوشش کرے، کیوں کہ’’ایک اعلیٰ آرٹ کی تخلیق ایک ذہن کرتا ہے، اعلیٰ آرٹ کسی اکیڈمی کے ذریعہ کبھی وجود میں نہیں آتا۔‘‘
سگمنڈ فرائڈ(1856-1939ء) کے وقت سے اب تک نفسیات کے جو مختلف اسکول وجود میں آئے ہیں، وہ باہمی اختلافات کے باوجود اس مشترکہ کوشش میں مصروف رہے ہیں کہ نفسیات کا کوئی ایسا علم وجود میں لائیں جو اقدار سے آزاد (Value Free Science) ہو۔ مگر یہ ایک واقعہ ہے کہ ایک صدی کی مسلسل کوششوں کے باوجود وہ اس منزل تک پہنچنے میں بالکل ناکام رہے ہیں۔ حتیٰ کہ اب ان کے درمیان اس کے خلاف ردعمل شروع ہوگیا ہے۔ مثلاً امریکا کا ممتاز ماہر نفسیات ابرہام میسلو (1908-1970ء)جوخودثبوتی کرداریت (Positivistic-Behavioristic Tradition) کے زیر سایہ تیار ہوا تھا، اپنی عمر کے آخری حصہ میں وہ انسانی فطرت کے دور ترگوشے(Farther reaches of human nature) کی تلاش میں مصروف ہوگیا۔ میسلو(Abraham Maslow )کا کہنا ہے:
Psychology had voluntarily restricted itself to only half of its rightful jurisdiction.
نفسیات نے اپنے جائز حدود کار کے نصف حصہ سے بطور خود اپنے آپ کو روک لیا۔