خاتمہ کا آغاز
امریکا میں حالیہ دنوںایک نئی فکری تحریک ابھری ہے جس کو عام طور پر خاتمیت (endism) کہا جاتا ہے۔ اس تحریک کا ایک ابتدائی تعارف ٹائمس آف انڈیا (28 اکتوبر 1989ء) میں دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ مضمون مذکورہ اخبار کے واشنگٹن میں مقیم نامہ نگارمسٹر گوتم ادھیکاری کے قلم سے ہے۔ اس کا عنوان ہے— خاتمہ کا آغاز، کیا تاریخ ٹھہر سکتی ہے:
The Beginning of Endism: can History stop?
مینی سوٹا کے ایک کالج(Gustarus Adolphus College) میں اکتوبر 1989ء میں ایک سیمینار ہوا۔ اس سیمینار کا موضوع تھا: سائنس کا خاتمہ(The End of Science) ۔اس سیمینار کے منتظمین نے اس کے تعارف نامہ میں لکھا تھا کہ جب ہم اپنی آج کی دنیا کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم کو یہ ناخوشگوار احساس ہوتا ہے کہ ہم سائنس کے خاتمہ کے دور میں پہنچ چکے ہیں۔ سائنس ایک متحد، عالمی اور موضوعی کوشش کی حیثیت سے اب ختم ہو چکی ہے:
As we study our world today, there is an uneasy feeling that we have come to the end of science, that science, as a unified. universal, objective endeavour, is over.
امریکا جدید ترقی یافتہ دنیا کا امام ہے۔ امریکا کے سابق صدر رہنری ٹرومین نے 1947ءمیں پر فخر طور پر کہا تھا کہ بیسویں صدی امریکا کی صدی(American century) ہے۔ اور امریکا آزاد دنیا(free world) کا لیڈر ہے۔ مگر صدی کے خاتمہ سے پہلے ہی امریکا کی عالمی لیڈر شپ کا خواب منتشر ہوگیا۔
مذکورہ نئے فکر کا آغاز امریکا میں1960ء میں ہوا جب کہ ڈینیل بل(Daniel Bell) کی کتاب نظریہ کا خاتمہ(End of Ideology) شائع ہوئی۔ اب1989ء میں فوکویاما (Francis Fukuyama) کی کتاب تاریخ کا خاتمہ(The End of History) کی اشاعت نے اس موضوع کو ازسر نو زندہ کر دیا ہے۔
آج کل امریکا میں کثرت سے ایسی کتابیں اور ایسے مضامین شائع ہو رہے ہیں جن کا نام اور عنوان اس قسم کا ہوتا ہے— سائنس کا خاتمہ، کمیونزم کا خاتمہ، ویسٹرنزم کا خاتمہ، نیشنلزم کا خاتمہ، آئیڈیالوجی کا خاتمہ:
The End of Science, The End of Westernism,
The End of Communism, The End of Nationalism.
The End of Liberalism. The End of ideology.
جدید انسان کا کہنا تھا کہ وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعہ ایک پرسکون زندگی کے تمام سامان حاصل کر سکتا ہے۔ امریکا میں سازو سامان عملی طور پر تقریباً حاصل ہو چکا ہے۔ مگر ان سامانوں نے بالآخر انسان کو جہاں پہنچایا وہ سکون(peace) نہیں تھا، بلکہ صرف بوریت(boredom) تھی۔
یہی ان تمام فلسفوں اور نظاموں کا حال ہوا ہے جن پر انسان نے موجودہ صدی کے آغاز میں پر جوش طور پر بھروسہ کر لیا تھا۔ کمیونزم کو بہت سے لوگوں نے آخری انسانی دریافت سمجھا تھا، مگر اب خود کمیونزم کے مرکز(سوویت روس) نے کمیونزم کو ناقص نظام قرار دے دیا۔ مغربی تہذیب مختلف قسم کے لاینحل مسائل(مثلاً عورتوں کی آزادی کے نتیجہ میں خاندانی انتشار) میں پھنس کر رہ گئی۔ نیشنلزم نے مختلف قوموں کو الگ الگ متحارب گروہوں میں بانٹ دیا۔ اس طرح یہ نظریہ عالمی امن کی راہ میں ایک مستقل رکاوٹ بن گیا۔ انسانی نظریہ سازی کا خواب اس صورت واقعہ سے ٹکرا گیا کہ انسان کے ذرائع معلومات لازمی محدودیت کا شکار ہیں۔ اور اس محدودیت کے رہتے ہوئے کوئی کامل نظریہ بنانا ممکن نہیں۔
یہ ایک نہایت عجیب صورت حال ہے جو بیسویں صدی کے خاتمہ پر سامنے آئی ہے۔ موجودہ زمانہ میں تمام انسانی نظامات ناکام ہوگئے۔ تمام نظریات اور تمام سائنسی علوم ناقص ثابت ہوئے۔ یہاں تک کہ ہر ایک کاخاتمہ(end) آگیا۔ مگر خدا کے دین کاخاتمہ(end) نہیں آیا۔ خدا کے دین کی کوئی بات نہ فکری طور پر بے بنیاد ثابت ہوئی اور نہ اس کا عملی نظام کسی پہلو سے غلط ثابت کیا جا سکا۔ وہ آج بھی اپنی حقانیت کو بدستور زندہ اور قائم رکھے ہوئے ہے۔
اس طرح گویا اللہ تعالیٰ نے ہمارے حصہ کا آدھا کام پیشگی طور پر انجام دے دیا ہے۔ اس نے خود اپنے برتر انتظام کے تحت مدعو کو’’لاالہ‘‘ کے مقام تک پہنچا دیا ہے۔ اب داعیوں کا کام صرف یہ ہے کہ وہ اس کے آگے’’الااللہ‘‘ کا اضافہ کرکے اس کی تکمیل کر دیں۔ اب بھی اگر مسلمان دعوت الیٰ اللہ کے کام کے لیے نہ اٹھیں تو یہ اتنی بڑی کوتاہی ہوگی جس کے لیے نہ دنیا میں ان کے پاس کوئی عذر ہوگا اور نہ آخرت میں۔
خاتمیت(endism) کی جس جدید تحریک کا اوپر ذکر کیا گیا، اس کی فہرست میں کچھ لوگ مذہب کو بھی شامل کرتے ہیں۔ چنانچہ مغربی دنیا میں ایسے مضامین بھی شائع ہو رہے ہیں جن کا عنوان ہوتا ہے— مذہب کا خاتمہ(The End of Religion)۔ مگر ’’کمیونزم کا خاتمہ‘‘ اور’’مذہب کا خاتمہ‘‘ دونوں عنوانات میں ایک بنیادی فرق ہے۔ جب کمیونزم کا خاتمہ کے الفاظ بولے جائیں تو اس کا مطلب خود اس نظریہ کا خاتمہ ہوتا ہے جس کو کمیونزم کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کمیونزم عین اپنی مارکسی تشریح کے مطابق، تجربہ میں لایا گیا اور ناکام ہوگیا۔
اس کے برعکس’’مذہب کا خاتمہ‘‘ کے الفاظ میں ایک غلط فہمی شامل ہے۔ ایسا کہنے والے لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ جس چیز کو وہ اپنے آس پاس دیکھ رہے ہیں، وہی وہ چیز ہے جس کو مذہب کہا جاتا ہے۔ حالانکہ ان کے آس پاس جو چیز مذہب کے نام سے موجود ہے، وہ مذہب کا بگڑا ہوا (distorted) ایڈیشن ہے نہ کہ اس کا اصل ایڈیشن۔
آج کل مذہب کے نام سے جو چیز ہر جگہ موجود ہے، وہ مذہب کا محرف ایڈیشن ہے۔ اس مذہب کا یقیناً خاتمہ(end) آ چکا ہے۔ مگر جہاں تک غیر محرف مذہب کا تعلق ہے، وہ بدستور زندہ حالت میں موجود ہے۔ یہ غیر محرف مذہب اسلام ہے۔ اسلام سورج کی طرح ایک ابدی حقیقت ہے۔ وہ انسان کی مستقل ضرورت ہے۔ آج کا انسان بھی اسلام کی رہنمائی کا اتنا ہی محتاج ہے جتنا کہ ماضی کا انسان اس کا محتاج تھا۔
بازار میں اگر کچھ لوگ ملاوٹی غذائیں فروخت کرنے لگیں تو ان سے واقف ہونے کے بعد انسان یقیناً ملاوٹی غذائوں سے بیزار ہو جائے گا۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان خالص غذا سے بھی بیزار ہو جائے۔ خالص غذا تو انسان کی ابدی اور لازمی ضرورت ہے۔ پھر وہ اس سے کیوں کر بیزار ہو سکتا ہے۔ ملاوٹی سامان سے خریداروں کی بیزاری اس دکاندار کے لیے کوئی مسئلہ نہیں جو خالص اور بے آمیز سامان اپنی دکان پر فروخت کر رہا ہو۔
اسلام کوئی نیا مذہب نہیں۔ اسلام کی امتیازی صفت یہ ہے کہ وہ ایک غیر محرف مذہب ہے۔ اسلام کے سوا جو دوسرے مذاہب ہیں، وہ اب اپنی ابتدائی حالت پر باقی نہیں ہیں۔ ان مذاہب کی تعلیمات میں بگاڑ اور ملاوٹ آ چکا ہے۔ اس بنا پر یہ مذاہب، اپنی موجودہ صورت میں، فطرت انسانی کے ساتھ اپنی مطابقت کھو چکے ہیں۔ وہ علمی اور تاریخی حقیقتوں سے ٹکرا رہے ہیں۔
مگر اسلام استثنائی طور پر ایک محفوظ مذہب ہے۔ اسلام آج بھی بدستور اپنی اصل حات پر موجود ہے۔ وہ انسانی فطرت کے مطابق بھی ہے اور علمی اور تاریخی حقائق سے ہم آہنگ بھی۔ اس لیے اسلام کا دور آج بھی پوری طرح باقی ہے۔ اسلام کے لیے نہ زوال کا سوال ہے اور نہ خاتمہ یا بعدازوقت ہونے کا۔
حقیقت یہ ہے کہ دوسرے نظریات کا خاتمہ اسلام کے نظریہ کا آغاز ہے۔ جہاں دوسرے مذاہب کی حد آ جائے وہاں اسلام اپنی ابدیت کو ازسر نو ثابت کر دیتا ہے۔ اسلام کے حاملین اگر اسلام کو لے کر اٹھیں تو وہ دیکھیں گے کہ ان کے لیے اجارہ داری کی حد تک ہر طرف کامیابی کے مواقع کھلے ہوئے ہیں۔