حقیقت کی دریافت میں ناکامی
کارل مارکس (1818-1883ء) فطرت سے غیر معمولی صلاحیت لے کر پیدا ہوا۔ جرمنی کی اعلیٰ تعلیم گاہوں میں اس نے ڈاکٹریٹ تک تعلیم حاصل کی۔ وہ آٹھ زبانیں جانتا تھا یونانی ، اطالوی ، اسپینی ، جرمن ، انگریزی ، فرانسیسی ، ڈچ ، فریشین ۔ آخر عمر میں اس نے روسی زبان سیکھنا شروع کیا۔ مگر تکمیل سے پہلے اس کا انتقال ہو گیا۔ وہ ساری عمر پڑھتا رہا۔ تاریخ، اقتصادیات اور فلسفہ سے لے کر ادب اور مذہب تک کوئی ایسا موضوع نہ تھا جس پر اس نے کافی مطالعہ نہ کیا ہو۔ اس نے لائبریریاں کی لائبریریاں اپنے ذہن میں اتار ڈالیں۔
مارکس کا یقین تھا کہ اس کی غیر معمولی ذہانت اور اس کے بے پناہ مطالعہ نے اس کو اس قابل بنا دیا ہے کہ وہ زندگی کے راز کو منکشف کر سکے۔ مارکس کے رفیق خاص فریڈرش انگلز نے جہاں ہیگل پر تنقید کی ہے، وہ لکھتا ہے
’’اگرچہ ہیگل اپنے وقت کا ایک بہت بڑا انسائیکلو پیڈیائی ذہن رکھنے والا آدمی تھا۔ تاہم وہ ایک محدود انسان تھا۔ اس کی محدودیت کی پہلی وجہ اس کی اپنی معلومات کی کمی تھی ، دوسری وجہ یہ تھی کہ اس کے زمانے کا علم اور اس وقت کے نظریات بھی محدود تھے ، اس کے علاوہ ایک تیسرا سبب بھی تھا ، وہ یہ کہ ہیگل ایک عینیت پسند (idealist) شخص تھا۔ یعنی وہ مادے کے بجائے تصّور کو اصل حقیقت سمجھتا تھا‘‘(مارکس انگلس سلکٹڈ ورکس جلد 2،ماسکو، 1949، صفحہ 122)۔
انگلز نے لکھا ہے کہ ان اسباب کی بنا پر ہیگل کی تفصیلات سب کی سب غلط ہو کر رہ گئیں اور حقیقت کی دریافت میں وہ ناکام رہا۔
انگلز کی یہ بات جو اس نے ہیگل کے بارے میں لکھی ہے، یہی خود مارکس پر بھی پوری طرح چسپاں ہوتی ہے۔ کیوں کہ وہ زندگی کے قانون کو اگرچہ تاریخ کا فیصلہ قرار دیتا ہے، مگر اس کے باوجود اس کا کہنا ہے کہ اس قانون کو معلوم کر کے اسے استعمال کرنا خود انسان کا اپنا کام ہے۔ اس لیے عملاً اس کے یہاں بھی قانون ساز خود انسان ہی بن جاتا ہے۔ مارکس جب کہتا ہے کہ زندگی کا قانون خود زندگی کے اندر موجود ہے، اس کو خارج میں کہیں سے برآمد کرنے کی ضرورت نہیں تو دراصل وہ اپنے آپ کو ان فلسفیوں سے الگ کرنا چاہتا ہے جو انسان کو ایک خود فکر مخلوق مان کر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انسان اپنا قانون ساز آپ ہے۔ اس کے برعکس مارکس کا نظریہ یہ ہے کہ جس طرح لوہے اور پتھر کے لیے الگ سے کوئی قانون بنانے کی ضرورت نہیں کیوں کہ وہ اپنا قانون اپنے ساتھ رکھتے ہیں، ٹھیک اسی طرح انسان بھی ایک قانون میں جکڑا ہوا ہے جس کو بنانا نہیں بلکہ دریافت کرنا ہے۔ مگر اس چھپے ہوئے قانون کو دریافت کرنے اور اس کو نافذ کرنے کا کام جب وہ خود انسان کے سپرد کرتا ہے تو ظاہری اختلاف کے باوجود وہ اپنے آپ کو انھیں فلسفیوں کے گروہ میں شامل کر دیتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ انسان خود اپنے لیے قانون بنا سکتا ہے۔ اس لیے وہ تنقید جو قسم اوّل کے فلسفیوں پر چسپاں ہوتی ہے ٹھیک وہی تنقید خود مارکس پر بھی چسپاں ہو رہی ہے۔ اس اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں۔
انگلز نے اپنے اس تجزیے میں ہیگل کی ناکامی کی وجہ یہ بتائی ہے کہ اس کا علم محدود تھا کیوں کہ ایک شخص خواہ کتنا ہی وسیع مطالعہ رکھتا ہو مگر بہرحال وہ محدود ہی رہے گا۔ دوسرے یہ کہ تحصیل علم کے لیے اس کو جو زمانہ ملا وہ بھی ایسا زمانہ تھا جو اسے زیادہ معلومات نہیں دے سکتا تھا۔ اس کے علاوہ وہ خود چوں کہ ایک خاص طرز فکر رکھتا تھا اس لیے زیادہ وسیع ذہن کے ساتھ نتائج اخذ کرنا اس کے لیے مشکل تھا۔ اگر انگلز کی اس تشریح کو صحیح مان لیا جائے تو اس سے نہ صرف ہیگل بلکہ تمام فلسفیوں کے نظریات کی تردید ہو جاتی ہے حتیٰ کہ خود مارکس کے فلسفہ کی بھی جس کو انگلز حقیقت کا صحیح ترین ترجمان مانتا ہے۔
پہلی چیز انسان کا اپنا علم ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ قانون دریافت کرنے کے لیے جس وسیع علم کی ضرورت ہے اس کے مقابلہ میں انسان کا علم ہمیشہ محدود رہے گا۔ زندگی کے قانون کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان تمام انسانوں کے لیے ہے جو روئے زمین پر بستے ہیں۔ کیا کوئی انسان یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ اس نے تمام انسانوں کے جذبات کو پڑھا ہے اور ان کی ضروریات کو معلوم کر لیا ہے۔ آدمی بسااوقات خود اپنے بارے میں کسی قطعی اور صحیح فیصلہ تک پہنچنے سے قاصر رہتا ہے۔ پھر وہ ان کروڑوں انسانوں کے بارے میں کیا جان سکتا ہے جن کی اس نے شکل تک نہیں دیکھی ، جن کے متعلق وہ کچھ بھی نہیں جانتا۔ زندگی کا مسئلہ ایک نہایت پیچیدہ مسئلہ ہے۔ جس طرح کسی مشین کا ایک پرزہ درست کرنے کے لیے اس کے تمام پرزوں سے واقفیت ضروری ہوتی ہے۔ اسی طرح انسانی زندگی کے کسی ایک جزء کے لیے بھی وہی شخص قانون بنا سکتا ہے جو پوری زندگی کے مسائل پر عبور حاصل کر چکا ہو۔ کیا انسان اپنی موجودہ عمر اور موجودہ ذہنی صلاحیتوں کے ساتھ ایسا کر سکتا ہے۔ ایک شخص جو بیک وقت دو خیالات پر غور نہیں کر سکتا۔ اس کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ کروروں انسانوں کے لیے قانون بنا سکتا ہے ، ایک ایسا دعویٰ ہے جس کے حق میں کوئی دلیل نہیں۔ ذہنی صلاحیتیں تو درکنار کیا چند سال کی یہ محدود عمر کسی کے لیے کافی ہو سکتی ہے کہ وہ زندگی کے مسائل کا جامعیت اور تفصیل کے ساتھ مطالعہ کر سکے۔
مارکس کی زندگی کے آخری 25 سال اس طرح گزرے ہیں کہ لندن میں برٹش میوزیم کے کتب خانہ میں صبح کو وہ سب سے پہلے داخل ہوتا تھا اور شام کو سب سے آخر میں نکلتا تھا۔ مگر اس غیر معمولی جانفشانی کے باوجود اپنی عمر میں وہ اپنی کتاب ’’سرمایہ‘‘ کی صرف ایک جلد شائع کر سکا اور بقیہ جلدیں مکمل کرنے سے پہلے ایک روز اپنے مطالعہ کے کمرہ میں آرام کرسی پر بیٹھا بیٹھا انتقال کر گیا۔ اس کی یہ مشہور کتاب جو ’’محنت کش طبقہ کی بائبل‘‘ کہی جاتی ہے اس کی دوسری اور تیسری جلدیں جن کا مسودہ وہ ناتمام حالت میں چھوڑ گیا تھا اس کو انگلز اور کاٹسکی نے بعد کو مکمل کیا اور اس میں بہت دنوں تک کاٹ چھانٹ ہوتی رہی۔ پھر مارکس نے اپنی بہترین کوشش صرف کرنے کے بعد جو ناتمام حاصل مطالعہ چھوڑا ہے اس کا بھی یہ حال ہے کہ اس میں زیادہ تر صرف سرمایہ دارانہ اقتصادیات کی تشریح کی گئی ہے۔ مگر موجودہ نظام کو توڑ کر سوشلسٹ اقتصادیات کی تنظیم کس طرح ہو گی ، اس پر توجہ دینے کا اسے بہت کم موقع ملا۔ مارکس کی تحریروں میں کہیں بھی اس نظام کی تفصیل نہیں ملتی جو سرمایہ داری نظام کے بعد آئے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کو جو صلاحیتیں دی گئی ہیں اور اس کو دنیا میں کام کرنے کے لیے جتنا وقت ملتا ہے اس کے تحت کوئی بھی انسان خواہ وہ کتنا ہی قابل ہو یہ کام نہیں کر سکتا۔ انسان کے لیے قانون بنانا انسان کے بس سے باہر ہے۔
دوسرے پہلو سے دیکھیے۔ آج جو قانون بنتا ہے وہ کل نافذ ہوتا ہے۔ مگر انسان کو کل کے بارے میں کچھ نہیں معلوم۔ آدمی کی معلومات صرف ماضی اور حال کے واقعات تک محدود ہیں۔ جب کہ اسے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنا ہے۔ مثال کے طور پرمارکسزم کا سارا انحصار ماضی کے تجزیے پر ہے۔ وہ صرف یہ دیکھتی ہے اور یہی دیکھ سکتی ہے کہ جو کچھ آج ہے وہ کیوں کر وجود میں آیا اور اس کی نشوونما کس طرح ہوئی اور پھر اس تجزیے کی بنیاد پر اپنا فیصلہ صادر کر دیتی ہے۔
مارکس اور اس کے متبعین کو اس طریقے کے مکمل ہونے پر اس قدر اصرار ہے گویا انھوں نے ’آخری سچائی‘ کو پا لیا ہے۔ حالانکہ مارکس کا نظریہ یہ ہے کہ جس طرح تمام موجودات عمل ارتقاء کے ذریعے وجود میں آتی ہیں اسی طرح انسانی سماج میں بھی ارتقائی عمل ہو رہا ہے اور پھر ڈارون کے نظریہ کے برعکس اس کا یہ بھی خیال ہے کہ ارتقاء کا یہ سفر لازمی طور پر تدریج اور تسلسل کے ساتھ نہیں ہو رہا ہے بلکہ اس میں اچانک خلاف توقع تبدیلی بھی ہوتی رہتی ہے۔ یہ نظریہ خود اس بات کی تردید کررہا ہے کہ کوئی شخص مستقبل کے بارے میں جان سکتا ہے۔ جب انسانی سماج کسی لگے بندھے ارتقائی نظریے کے مطابق سفر نہیں کر رہا ہے بلکہ بعض اوقات بالکل اچانک اس میں غیر متوقع تبدیلیاں بھی ہوتی ہیں تو آئندہ کے بارے میں کوئی اصول کس طرح طے کیا جا سکتا ہے۔ پھر کس طرح یقین کیا جائے کہ ماضی کے بارے میں کسی شخص کا تجزیہ لازمی طور پر مستقبل کی بھی صحیح تشریح کرتا ہے۔ جو کچھ وجود میں آ چکا ہے ان کے بارے میں کوئی سر پھر ا سب کچھ جاننے کا دعویٰ کر سکتا ہے۔ مگر جو کچھ ابھی سرے سے وجود میں نہیں آیا ان کو کون جان سکتا ہے جب کہ مارکسی فلسفہ کے مطابق ان کے لیے کوئی لگا بندھا اصول بھی نہیں ہے۔ جب کہ اکثر اوقات اندازے کے خلاف بھی اس میں تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔
اب تیسری حیثیت سے دیکھیے۔ انگلز کے خیال میں ہیگل اس لیے حقیقت تک نہ پہنچ سکا کہ وہ ’’عینیت پسند‘‘ تھا۔ ٹھیک یہی بات خود مارکس کے بارے میں کہی جا سکتی ہے کہ وہ اس لیے حقیقت تک نہیں پہنچ سکا کہ وہ ’’مادیت پسند‘‘ تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ کوئی انسان اس پر قادر نہیں ہے کہ وہ بالکل تجریدی انداز میں حقائق کا مطالعہ کر سکے۔ ہر شخص کے کچھ مخصوص رحجانات ہوتے ہیں اور آدمی مجبورہے کہ وہ جب بھی مسائل حیات کا مطالعہ کرے تو ان رجحانات سے مغلوب ہو جائے۔ اس طرح ہر آدمی کا مطالعہ جانبدار مطالعہ بن جاتا ہے اور اس کے فیصلے زندگی کے بے شمار پہلوئوں میں سے کسی ایک پہلو کی طرف جھکے ہوئے ہوتے ہیں ، اس میں ایک فرد کے ذوق کی تسکین ہو سکتی ہے، مگر مجموعی طور پر پورے معاشرے کے لیے وہ بالکل ناقابل قبول ہوتے ہیں۔
انسان کی ذاتی کیفیات کس طرح اس کے طرز فکر پر غالب ہو جاتی ہیں اس کی ایک دلچسپ مثال یہ ہے کہ مارکس کی کتاب ’’سرمایہ‘‘ کی پہلی جلد شائع ہو کر جب انگلز کے ہاتھ میں گئی تو اس نے اس کے پہلے دو ابواب پر جن میں جنس اور زر کا تجزیہ ہے اور جو تمام کتاب میں سب سے زیادہ صبر آزما اوراق سمجھے جاتے ہیں ، تبصرہ کرتے ہوئے مارکس کو لکھا
’’کیا ہی اچھا ہوتا اگر یہ ابواب اتنے لمبے ہونے کے بجائے چھوٹے چھوٹے کئی حصوں پر منقسم ہوتے اور ان کو زیادہ عام فہم بنا دیا جاتا۔ مجھے یاد ہے کہ جس زمانہ میں یہ ابواب لکھے جا رہے تھے ، تمہیں سرطان کے پھوڑوں نے پریشان کر رکھا تھا۔ تمہارے پھوڑوں کا وہی عذاب ان ابواب میں مقید ہو گیا ہے اور وہی کرب و بو ان میں بھی بس گئی ہے‘‘۔
مارکس نے اس تنقید کی تصدیق کرتے ہوئے جواب دیا
’’مجھے اس کا افسوس نہیں ہے بلکہ خوش ہوں کہ سرطان کے پھوڑوں کاعذاب ان میں محفوظ ہے کیوں کہ میری یہ کتاب سرمایہ داروں کے طبقے میں جب جائے گی تو اس عذاب کا مزہ وہ بھی چکھ سکیں گے‘‘ ۔
یہ صحیح ہے کہ ایک سرطان زدہ مصنف کی تحریر کو جو شخص پڑھے گا وہ اس کے اندر پھوڑوں کا تعفن اور ان کا کرب محسوس کر سکتا ہے۔ مگر ظاہر ہے کہ یہ تحریر کی خوبی نہیں بلکہ اس کا نقص ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ تحریر ایک شخص کی ذہنی حالت کی ترجمان ہے نہ کہ حقیقت کی ترجمان۔