علم نبوت
موجودہ زمانہ میں علوم فطرت (Natural science) کا بہت چرچا ہے۔ لوگ فطرت کی دنیا میں انسانی دریافتوں سے حیران ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ان علوم نے فطرت کے صرف کچھ ظاہری پہلوئوں کو ہمارے اوپر کھولا ہے۔ کائنات کی معنویت اس سے زیادہ ہے کہ وہ انسانی لفظوں میں بیان کی جا سکے۔
وسیع خلا میں پھیلی ہوئی دنیائیں اس سے زیادہ بڑی حقیقت کی ترجمان ہیں جو ہماری دوربینوں کے ذریعہ ہمیں معلوم ہوتی ہے۔ پہاڑوں کے مناظر میں اس سے زیادہ گہری داستان چھپی ہوئی ہے جو کیمرہ کی آنکھ پکڑتی ہے اور ہمیں دکھاتی ہے۔ چڑیوں کے چہچہے اس سے زیادہ بڑی کہانی سنا رہے ہیں جو ہوا کے ذریعہ ہمارے کانوں تک پہنچ رہی ہے۔ درخت اس سے زیادہ بڑا سبق دیتے ہیں جو لکڑی اور پھل کی صورت میں ہمیں حاصل ہوتا ہے۔
کائنات سے واقفیت کی ایک سطح وہ ہے جو انسانی علوم کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے۔ پھر دوسری سطح کا علم حاصل کرنے کا ذریعہ کیا ہے۔ یہ ذریعہ وحی یا علم نبوت ہے۔ نبی ہمارے اوپر اس علم کو کھولتا ہے کہ اس کائنات کے پیچھے ایک عظیم خدا ہے۔ اس کائنات کا نظام خدا کی طرف سے غیر مرئی طور پر چلایا جا رہا ہے۔ یہ دنیا عارضی ہے۔ اس کے بعد ایک اور دنیا آئے گی جو ابدی بھی ہو گی اور کامل بھی۔
اس پیغمبرانہ علم کی روشنی میں جب کائنات کو دیکھا جائے تو اب کائنات بالکل دوسری کائنات نظر آنے لگتی ہے۔ اب یہاں دیکھنے والے کو خالق کی تجلیاں نظر آتی ہیں۔ اب یہاں سننے والے کو خدائی آوازیں گونجتی ہوئی سنائی دیتی ہیں۔ اب یہاں کی سرگرمیوں میں فرشتے حرکت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اب یہاں کے مناظر میں آخرت لپٹی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔
انسانی علم کی روشنی میں کائنات منزل نظر آتی ہے۔ مگر پیغمبرانہ علم کی روشنی میں وہ گزر گاہ بن جاتی ہے۔ انسانی علم کا استعمال ہمیں صرف کائنات کی چند روزہ خوراک دیتا ہے جب کہ پیغمبرانہ علم اس کو ہمارے لیے ابدی خوراک بنا دیتا ہے۔ انسانی علم ہمیں صرف مخلوقات سے ملاتا ہے اور پیغمبرانہ علم ہم کو مخلوقات کے خالق سے ملا دیتا ہے۔
علم نبوت دراصل علم حقیقت کا دوسرا نام ہے۔