نیم کا معجزہ

دوسری انٹرنیشنل نیم کانفرنس دسمبر1983 میں مغربی جرمنی میں ہوئی۔ آج کل نیم کا درخت نباتاتی علماء کی خصوصی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نیم مضر کیڑوں کو بھگانے والا ایک قیمتی قدرتی ذریعہ(natural repellent) ہے۔ انسان نے کیمیائی طور پر جتنی کیڑا مار دوائیں بنائی ہیں وہ سب کیڑے پر اثر انداز ہونے کے ساتھ فضا کو بھی خراب کرتی ہیں اور اس طرح انسان کے لیے مضر بنتی ہیں۔ مگر نیم کے اندریہ انوکھی صفت ہے کہ وہ کسی فضائی نقصان (environmental damage) کے بغیر انسان کو اور نباتات کو مضر کیڑوں سے بچاتی ہے۔

مذکورہ کانفرنس میں21 ملکوں کے ایک سو سے زیادہ سائنس داں جمع ہوئے۔ ہر ایک نے اپنے اپنے دائرہ میں نیم کے تجربات بتائے۔ ہالینڈ سے آنے والے ایک عالم ایل ایم اسچون ہیون(Dr. L.M.S Choonhoven) نے اپنے مقالہ میں بتایا کہ نیم کے اندر ایک انوکھا دفاعی نظام(unique defence syetem) ہے۔ یہ نظام ایک بے حد نادر قسم کا کیڑا کنٹرول (insect control) ذریعہ ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ٹوگو (togo) میں یہ تجربہ کیا گیا کہ کھیت کی مٹی میں نیم کی پتی ملا دی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نباتاتی کیڑوں (plant parasites) کی تعداد بہت گھٹ گئی۔ اور ایسے کھیت جن میں یہ عمل کیا گیا تھا، فصل کی پیداوار میں نمایاں اضافہ (spectacular increase) ہوا۔

ہندستان کے نمائندہ نے اپنے مقالہ میں بتایا کہ نیشنل کیمیکل لیبارٹری(پونا) نے نیم کا ایک کمپائونڈ تیار کیا ہے جس کا نام نیمرچ(Neemrich) ہے۔ مکاّ، آلو اور بعض دوسری فصلوں میں نیمرچ کے تجربے کیے گئے جس کے نتیجہ میں ان کی پیداوار میں قابل لحاظ اضافہ ہوا۔

موجودہ زمانہ میں دنیا کے تمام ملکوں میں کیڑا مار دوائوں(pesticides) کا استعمال عام ہے۔ ان دوائوں کے استعمال سے یقیناً زرعی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے، مگر ابھی تک انسان یہ دریافت نہ کر سکا کہ ان دوائوں کے استعمال سے فضا میں جو مضر اثرات ہوتے ہیں ان سے کس طرح بچا جائے۔ یہ کیڑا مار دوائیں اگر ایک طرف کیڑے کو مارتی ہیں تو اسی کے ساتھ وہ انسان کو بھی نقصان پہنچاتی ہیں۔

اگر آپ لکڑی اور پتی کو آگ میں ڈالیں تو دونوں جل جائیں گی۔ کیوں کہ اصل کے اعتبار سے دونوں ایک ہیں۔ اسی طرح انسان اور کیڑے دونوں زندہ انواع ہیں۔ جو چیز ایک کے لیے نقصان دہ ہے وہی دوسرے کے نقصان کا باعث بھی ہوتی ہے۔

انسان کو مضر بیکٹیریا سے بچانے کے لیے اینٹی بایوٹک دوائیں کھلائی جاتی ہیں۔ یہ دوائیں بیکٹیریاں کی طرح انسان کے جسم کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں۔ مکھی، مچھر، دیمک اور دوسرے کیڑوں کو ختم کرنے کے لیے ڈی ڈی ٹی چھڑکا جاتا ہے۔ اس سے مذکورہ کیڑے بھاگتے ہیں یا مر جاتے ہیں۔ مگر اسی کے ساتھ فضا میں ڈی ڈی ٹی کے اجزاء شامل ہو جاتے ہیں۔ انسان سانس کے ذریعہ ان کو اپنے اندر داخل کر لیتا ہے۔ اور پھر طرح طرح کے امراض کا شکار ہوتا ہے۔ پھل اور زرعی پیداوار میں مضر کیڑے لگتے ہیں جن سے پیداوار بہت کم ہو جاتی ہے۔ اس کے لیے کیڑا مار دوائیں بنائی گئی ہیں۔ ان دوائوں کے استعمال سے باغوں اور کھیتوں کی پیداوار میں قابل لحاظ اضافہ ہوا ہے مگر یہاں بھی وہی صورت ہے کہ ایک طرف ان کیڑا مار دوائوں سے فضا خراب ہوتی ہے، دوسری طرف خود پیداوار میں مضر کیمیائی مادے شامل ہو جاتے ہیں اور کھانے کے ساتھ انسان کے اندر داخل ہو کر نقصان کا سبب بنتے ہیں۔

ہندستان میں ہر سال تقریباً چالیس ہزار پونڈ کیمیکل دوائیں زرعی کھیتوں میں چھڑکی جاتی ہیں۔ اس کے نتیجہ میں عوام کی صحت کا معیار برابر گر رہا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ (1983ء) میں بتایا گیا ہے کہ تیسری دنیا کے ملکوں میں زرعی کیڑوں کو مارنے کے لیے جو کیمیائی دوائیں استعمال ہوتی ہیں ان کے زہریلے اثرات سے ہر سال تقریباً پچاس ہزار آدمی بیمار پڑتے ہیں اور ان میں سے تقریباً پانچ ہزار آدمی مر جاتے ہیں۔

انسانی سائنس ابھی اس سائنس تک بھی نہیں پہنچی جس کا مظاہرہ قدرت کے اس معجزہ کی سطح پر ہو رہا ہے جس کو نیم کا درخت کہتے ہیں۔ اس کے باوجود بہت سے لوگ یہ فرض کیے ہوئے ہیں کہ اس دنیا کا کوئی خالق و مالک نہیں۔ اس دنیا کو چلانے والا کوئی ذہن نہیں۔

’’ڈی ڈی ٹی‘‘ کا ایک پیکٹ ہو تو اس کو دیکھ کر کوئی شخص یہ نہیں کہے گا کہ یہ پیکٹ اپنے آپ بن گیا ہے۔ ہر آدمی اس کو ذہن کی تخلیق قرار دے گا۔ مگر ڈی ڈی ٹی کی نوعیت کی اس سے زیادہ اعلیٰ پیداوار کو دیکھ کر آدمی یہ کہہ دیتا ہے کہ وہ اپنے آپ وجود میں آگئی ہے۔ نیم کا درخت بلاشبہ ڈی ڈی ٹی سے بہت زیادہ اعلیٰ پیداوار ہے۔ اس کی بناوٹ میں یقینی طور پر غیر معمولی ذہانت پائی جاتی ہے۔ پھر کیسے عجیب ہیں وہ لوگ جو ڈی ڈی ٹی کے بارے میں یہ مانتے ہیں کہ وہ ذہانت کی پیداوار ہے۔ مگر یہی بات وہ نیم جیسی چیزوں کے بارے میں نہیں مانتے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom