خدائی نشان

ٹائم میگزین 12 ستمبر 1988ء میں ایک باتصویر رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ اس کا عنوان ہے—  آسمانوں سے جہنمی آگ:

Hellfire from the heavens

یہ ایک خوفناک ہوائی حادثہ کی رپورٹ ہے جو 28 اگست 1988 ءکو مغربی جرمنی میں پیش آیا۔ فرینکفرٹ کے قریب ریمسٹین ائیر بیس (Ramstein Air Base) پر ایک ہوائی مظاہرہ (Air Show) ہو رہا تھا۔ جس میں جدید ترین قسم کے دس فوجی جہاز حصہ لے رہے تھے۔اس نمائش کا نام دل کے درمیان تیر (Arrow through the heart) رکھا گیا تھا۔ تقریباً 3 لاکھ 300,000))آدمی اس خصوصی مظاہرہ کو دیکھنے کے لیے جمع تھے۔

نقشہ ذیل کے مطابق ، دس جہازوں نے فضا میں اڑ کر دل کی تصویر بنائی۔ یہ سب جیٹ جہاز تھے جو 350 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اڑ رہے تھے۔ ان میں سے ایک جہاز کو پروازکے دوران الگ ہو کر ’’دل‘‘ کے اندر سے تیر کی مانند پار ہونا تھا۔ جہاز کے باہر پائلٹ نے حسب پروگرام جہاز کواڑایا۔ مگر حساب کی معمولی غلطی سے یہ جہاز (تیر) دوسرے جہازوں کے مقام اتصال پر چند سیکنڈ پہلے پہنچ گیا۔ نیز یہ کہ اس جہاز (تیر) کو دوسرے جہازوں کی سطح پر واز سے کسی قدر بلندی پر اڑنا تھا۔ مگر اس کی سطح پر واز مقام اتصال پر عین وہی ہو گئی جو مقابل کے دوسرے جہاز کی تھی۔

اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ’’تیر‘‘ فضا سے پار ہونے کے بجائے مقابل کے جہاز سے ٹکرا گیا۔ تین جہازوں میں فوراً آگ لگ گئی۔ عام حالات میں فوجی جہازوں کی یہ غیر معمولی نمائش لوگوں کے اندر زبردست جوش و مسرت پیدا کرنے کا سبب بنتی۔ مگر مذکورہ حادثہ کے بعد وہ جہنمی لمحات (hellis minutes) میں تبدیل ہو گئی۔

یہ جہاز رانی کی پوری تاریخ میں سب سے زیادہ بھیانک ہوائی حادثہ تھا۔ تین جہازوں کے پائلٹ اپنے جہازوں کے ساتھ فوراً ہلاک ہو گئے۔ نمائش دیکھنے والوں میں تقریباً 400 آدمی جل کر یا تو شدید زخمی ہوئے یا پھر مرکر ختم ہو گئے۔ یہ حادثہ اتنا اچانک تھا کہ لوگوں نے سمجھا کہ شاید یہ بھی کوئی تماشہ ہے۔ ایک شخص نے کہا:

I thought it was just some kind of special effect.

اس ہوائی مظاہرے کی تصویریں ٹیلی ویژن پر لی جا رہی تھیں۔ چنانچہ شروع سے آخر تک تمام مناظر رنگین تصویروں کی صورت میں ریکارڈ ہو گئے۔ ٹائم کی مطبوعہ تصویروں میں دکھایا گیا ہے کہ جہازوں کے ٹکراتے ہی زبردست آگ لگ گئی۔ جہازوں کے جلتے ہوئے ٹکڑے کھڑی ہوئی کاروں پر گرتے ہیں اور کاریں جلنے لگتی ہیں۔ تماشائیوں کے مجمع کے اوپر آگ سرخ بادل کی طرح انڈ پڑتی ہے ، ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے آسمان سے جہنمی آگ کا بہت بڑا گولہ گر پڑا ہو۔

اس نقشہ کو دیکھیے۔ دس ہوائی جہاز ایک ساتھ اڑ کر اوپر پہنچتے ہیں۔ پھر ان میں سے پانچ جہاز ایک طرف اور چار جہاز دوسری طرف جا کر اپنے پیچھے سے لال، سفید اور ہرے رنگ کا دھواں نکالتے ہوئے فضا میں دل کی شکل (یان پان کے پتے کی شکل) بناتے ہیں۔ ان میں سے ایک جہاز بیچ سے الگ ہو کر پیچھے کی طرف جاتا ہے اور پھر واپس ہو کر ’’دل‘‘ کے اندر سے پار ہوکر باہر نکل جانا چاہتا ہے، نیچے ’’ستارہ‘‘ کے مقام پر وہ دوسرے جہاز سے ٹکرا جاتا ہے۔ کیوں کہ مقررہ حساب کے خلاف وہ کسی قدر جلد اور کسی قدر نیچے آ گیا تھا۔

خوشیاں اچانک غم میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ لوگ بدحواسی کے عالم میں اِدھر اُدھر بھاگ رہے ہیں۔ ایک شخص نے کہا: میں چیخ پڑا کہ ہائے خدا، میں نے اوپر دیکھا تو وہاں آگ کے سوا اور کچھ نہ تھا:

''I yelled, 'Oh,' and looked over my shoulder and saw nothing but fire.''

یہ ہوائی مظاہرہ انتہائی تربیت یافتہ فوجی پائلٹ انجام دے رہے تھے۔ منتظمین کو ان کی مہارت پر اتنا اعتماد تھا کہ وہ وہاں کوئی ایمبولنس کار تک موجود نہ تھی۔ وہ اس قسم کے حادثہ کی بالکل امید نہیں رکھتے تھے۔ چنانچہ زخمیوں کو فوری طور پر ہسپتال پہنچانے میں سخت مشکل پیش آئی۔

اس انسانی واقعہ میں بہت بڑا خدائی سبق ہے۔ وہ یہ کہ ’’دل کے درمیان سے تیر‘‘ گزارنے کا جو عمل جرمنی کے ہوا بازوں نے بہت چھوٹے پیمانہ پر کرنا چاہا اور وہ اس میں ناکام رہے۔ یہی عمل بہت زیادہ بڑے پیمانہ پر وسیع کائنات میں ہر آن ہو رہا ہے ، مگر یہاں کسی قسم کا حادثہ پیش نہیں آتا۔

آسمان میں ستاروں کی تعداد اتنی ہی ہے جتنی تمام سمندروں کے کنارے ریت کے ذروں کی تعداد ہے۔ یہ تمام ستارے ہر لمحہ نہایت تیزی سے حرکت کر رہے ہیں۔ مگر ان میں کبھی ٹکرائو نہیں ہوتا۔ ایک کہکشاں جس کے اندر اربوں کی تعداد میں بڑے بڑے ستارے ہوتے ہیں ، وہ حرکت کرتی ہوئی دوسری کہکشاں کے اندر داخل ہوتی ہے اور پھر اس کے پار ہو جاتی ہے ، مگر دونوں کہکشائوں کے ستارے آپس میں نہیں ٹکراتے۔

یہ واقعہ کھلا ہوا ثبوت ہے کہ کوئی بہت بڑا انتظام کرنے والا ہے جو اس کائنات کا انتظام کر رہا ہے۔ ایک اتھاہ قوتوں والا انتظام کار اگر اس دنیا کے پیچھے نہ ہو تو سارا کائناتی کارخانہ اسی طرح تباہ و برباد ہو کر رہ جائے جس طرح جرمنی کی ہوائی نمائش تباہ ہو کر رہ گئی۔

اس انسانی واقعہ میں بہت بڑا خدائی سبق ہے۔ وہ یہ کہ ’’دل کے درمیان سے تیر‘‘ گزارنے کا جو عمل جرمنی کے ہوا بازوں نے بہت چھوٹے پیمانہ پر کرنا چاہا اور وہ اس میں ناکام رہے ، یہی عمل بہت زیادہ بڑے پیمانہ پر وسیع کائنات میں ہر آن ہو رہا ہے ، مگر یہاں کسی قسم کا حادثہ پیش نہیں آتا۔

آسمان میں ستاروں کی تعداد اتنی ہی ہے جتنی تمام سمندروں کے کنارے ریت کے ذرّوں کی تعداد ہے۔ یہ تمام ستارے ہر لمحہ نہایت تیزی سے حرکت کر رہے ہیں ، مگر ان میں کبھی ٹکرائو نہیں ہوتا۔ ایک کہکشاں جس کے اندر اربوں کی تعداد میں بڑے بڑے ستارے ہوتے ہیں ، وہ حرکت کرتی ہوئی دوسری کہکشاں کے اندر داخل ہوتی ہے۔ اور پھر اس کے پار ہو جاتی ہے ، مگر دونوں کہکشائوں کے ستارے آپس میں نہیں ٹکراتے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom