سائنس کے معاملہ میں موجودہ مسلمانوں کی غفلت
1۔ صدیوں تک سائنسی علوم سے دور رہنے کے بعد یورپ کے ذریعہ جب سائنس مسلمانوں کی طرف آئی تو وہ صرف ایک علم کے طور پر نہیں آئی۔ بلکہ وہ ملک گیری اور استعمار کے جلو میں آئی۔ مسلمانوں کے پاس یہ سائنس لے کر وہ لوگ آر رہے تھے جنہوں نے مسلمانوں سے ان کی عظمت اور ان کے اقتدار کو چھینا تھا۔ ان کی تہذیب اور ان کے مذہبی شعائر پر حملے کیے تھے۔ اس موقع پر مسلمان اس دانش مندی کا ثبوت نہ دے سکے کہ وہ مغربی سائنس کو مغربی سیاست سے الگ کرکے دیکھیں۔ انھوں نے دونوں کو ایک سمجھا۔ وہ جس طرح مغربی قوموں کے دشمن بنے، اسی طرح وہ مغربی علوم کے بھی دشمن بن گئے۔ جب کہ دوسری قومیں مغرب سے ان کے علوم سیکھ رہی تھیں، مسلمان ان کو دشمن کی چیز سمجھ کر ان سے دور بھاگ رہے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ موجودہ زمانہ میں مسلمان دوسری قوموں سے کم ازکم سو سال علم میں پیچھے ہوگئے، قوموں کے اوپر علمی امام بننے کا تو کوئی سوال ہی نہیں۔
2۔ مزید نقصان یہ ہوا کہ طویل غفلت کے بعد مسلمانوں میں جو لوگ علم کے مبلغ بن کر اٹھے وہ اس کام کے پوری طرح اہل نہ تھے۔ انھوں نے ایک صحیح کام کو غلط طریقہ سے انجام دینے کی کوشش کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں میں ان کو وہ قبولیت حاصل نہ ہو سکی جو باعتبار حقیقت انھیں حاصل ہونی چاہیے تھی۔
مثال کے طور پر علم جدید کی اہمیت ثابت کرنے کے لیے انھوں نے یہ کیا کہ قرآن و حدیث میں جہاں جہاں’’علم‘‘ کا لفظ آیا ہے اس کو انھوں نے ان سیکولر علوم کا مصداق بتایا جو آج یونیورسٹیوں اور کالجوں میں پڑھایا جاتا ہے۔ یہ ایک صحیح بات کے لیے غلط دلیل پیش کرنا تھا۔ کیوں کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ قرآن و حدیث میں جس علم کی فضیلت بیان ہوئی ہے اس سے مراد علم دین ہے، نہ کہ سیکولر یا سائنسی علوم۔ ان کو حاصل کرنا یقیناً مسلمانوں کے لیے ضروری ہے۔ مگر ان علوم کی اہمیت آیتِ قوت (انفال،8:60) سے ثابت ہوتی ہے، نہ کہ آیتِ علم سے۔ قرآن میں حکم دیا گیا ہے کہ اس قوت کو حاصل کرو جس سے تمہارے حریف کے اوپر تمہاری دھاک قائم ہو۔ موجودہ زمانہ میں سائنسی علوم نے یہی مقام حاصل کر لیا ہے۔ اس لیے سائنسی علوم کا حاصل کرنا مسلمانوں کے لیے ضروری ہے۔ سائنسی علوم میں دستگاہ حاصل کیے بغیر مسلمان آج کی دنیا میں قوت مرہبہ (انفال،8:60) کے مالک نہیں بن سکتے، اس لیے اس قرآنی حکم کی تعمیل میں موجودہ حالات کے لحاظ سے یہ بات بھی شامل ہوگی کہ وہ ان علوم کو حاصل کریں اور ان کو اسلام اور مسلمانوں کی تقویت کا ذریعہ بنائیں۔
موجودہ زمانہ کے تعلیمی مصلحین کی اس غلطی کا نتیجہ تھا کہ مسلمانوں کا دینی طبقہ ان کا سخت مخالف ہوگیا۔طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر224) جیسی نصوص کا مطلب دینی طبقہ کے نزدیک متفقہ طور پر یہ تھا کہ اس سے مراد کتاب و سنت کا علم حاصل کرنا ہے۔ جب تعلیمی مصلحین نے اس طرح کی آیتوں اور حدیثوں کو موجودہ زمانہ کے’’دنیاوی‘‘ علوم پر چسپاں کیا تو دینی طبقہ کو یہ بات سراسر اسلام کی تحریف نظر آئی۔ وہ اس کا دشمن بن کر کھڑا ہوگیا۔ تعلیمی مصلحین بلاشبہ غلطی پر تھے۔ مگر دینی نمائندوں سے بھی یہ غلطی ہوئی کہ وہ مقصد اور استدلال دونوں کو ایک دوسرے سے الگ کرکے نہ دیکھ سکے۔ اگر وہ ایسا کرتے تو انھیں نظر آتا کہ تعلیمی مصلحین جن علوم کی اہمیت کو آیت علم سے غلط طور پر ثابت کر رہے ہیں وہ آیت قوت(انفال،8:60) سے بالکل درست طور پر ثابت ہو رہی ہے۔ اس لیے اس معاملہ میں اصل کام استدلال کی تصحیح ہے، نہ کہ خود مقصد کو باطل قرار دینا۔