بالواسطہ اعتراف
ڈاکٹر سبرامنیم چندر شیکھر(1910-1995) ایک مشہور سائنس داں ہیں۔ ایک انٹرویو کے درمیان انھوں نے کہا کہ میں خدا میں عقیدہ نہیں رکھتا۔ میں ایک ملحد انسان (atheist) ہوں۔ تاہم اسی کے ساتھ انھوں نے ایک ایسی بات کہی جو بالواسطہ انداز میں خدا کے وجود کے اقرار کے ہم معنی ہے(ہندستان ٹائمس ، 31 مئی 1987ء) ۔
کائنات میں کچھ ایسے پہلو ہیں جو انتہائی حد تک سمجھ سے باہر ہیں۔ آئن سٹائن، شروڈنگر اور دوسرے کئی لوگوں نے کہا ہے کہ فطرت کے بارے میں سب سے زیادہ ناقابل فہم بات یہ ہے کہ وہ قابل فہم ہے۔ کیوں کر ایسا ہے کہ انسانی دماغ جو کائنات کے لحاظ سے بہت ہی چھوٹا ہے اور فلکیاتی وقت کے مقابلہ میں جس کی زندگی کاوقفہ بے حد کم ہے ، وہ خیالات میں حقیقت کو سمجھ پاتا ہے جو کہ انسانی دماغ سے نکلتے ہیں۔ اس سوال نے کپلر سے لے کر آج تک بہت سے لوگوں کو پریشان رکھا ہے۔ ریاضیاتی بیان میں صحت کیوں پائی جاتی ہے۔ ریاضیات ایک ایسی چیز ہے جس کو انسانی دماغ نے بنایا ہے۔ پھر وہ خارجی فطرت پر چسپاں کیوں ہو جاتی ہے۔ ان سوالوں کا جواب ہمارے پاس نہیں ہے۔ کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ کائنات منظم ہے ، اس لیے ضروری ہے کہ وہ منظم کی گئی ہو۔ مگر کیوں ا یسا ہے کہ ہم کائنات کو ایسی اصطلاحوں میں سمجھ پاتے ہیں جن کو ہم نے خود بنایا ہے:
There are aspects (in the world) which are extremely difficult to understand. A famous remark of Einstein —and other people have said similar things, Schrodinger in particular — that the most incomprehensible thing about nature is that it is comprehensible. How is it that the human mind, extremely small compared to the universe and living over a time span microscopic in terms of astronomical time, comprehend reality in ideas which spring from the human mind? This question has puzzled many people from Kepler on. Why should mathematical description be accurate? Mathematical description is something the human mind has evolved. Why should it fit external nature? We do not have answers to these questions. One is not saying the world is orderly and therefore must be concepts we have developed?
The Hindustan Times (New Delhi) May 31, 1987.
سائنس دانوں کا یہ تبصرہ بہت عجیب اور اسی کے ساتھ بے حد سبق آموز ہے کہ فطرت کے بارے میں سب سے زیادہ ناقابل فہم بات یہ ہے کہ وہ قابل فہم ہے:
The most incomprehensible thing about
nature is that it is comprehensible.
سائنس داں جب کائنات کامطالعہ کرتاہے تو اس کو کائنات کے اندر انتہائی کامل درجہ کانظم دکھائی دیتاہے۔ اب اپنے پیشگی مفروضہ کی بنا پر چوں کہ وہ اس نظم کا کوئی زندہ ناظم نہیں مانتا، اس لیے اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ ناظم کے بغیر نظم کی توجیہ کس طرح کرے مگر یہ غلط مفروضہ کے تحت کائنات کا مطالعہ کرنا ہے۔ مفروضہ کو درست کر لیا جائے تو اس کے بعد حیرانی اپنے آپ ختم ہو جائے گی۔
حقیقت یہ ہے کہ کائنات کے بارے میں سب سے زیادہ قابل فہم بات یہ ہے کہ وہ ناقابل فہم نہیں۔ کائنات ایک خالق کی تخلیق اور ایک ناظم کا نظام ہے۔ جب ایسا ہے تو اس کے لیے سب سے زیادہ سزا وار بات یہی ہے کہ وہ قابل فہم ہو۔ وہ ایک باشعور حکیم کا حکیمانہ کارنامہ نظر آئے۔