علم کی واپسی
قدیم ترین زمانہ سے انسانی فکر پرمذہب کا غلبہ تھا۔ اسی کے زیر اثر فلسفہ بنا۔ فلسفہ کا رحجان ہمیشہ یہ رہا کہ عالم کی توجیہ کسی نہ کسی طرح روح یا نفس کی اصطلاحات میں کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ فلسفہ کی بنیاد ہمیشہ تصوریت (idealism) پر رہی ہے۔ تاہم سائنس کے جدید دور میں ایک خاص عرصہ تک انسانی فکر پر مادیت کا غلبہ ہو گیا۔ قدیم زمانہ میں انسانی فکرکے دو دھارے نہیں تھے۔ مگر موجودہ زمانہ میں انسانی فکر تصوریت اور مادیت کے دو دھاروں میں تقسیم ہو گیا۔ اب موجودہ صدی میں یہ فاصلہ بڑی حد تک ختم ہو گیا ہے۔ وائٹ ہڈ کے الفاظ میں ’’فلسفہ سائنس سے دور ہو گیا تھا۔ مگر اب ذہن اور مادہ کا فرق جیسے جیسے مٹ رہا ہے ، فلسفہ دوبارہ اپنی پرانی اہمیت کی طرف واپس آتا جا رہا ہے‘‘۔
(Science and the Modern world)
پروفیسر ہیزن برگ (1901-1976ء) کا شمار جدید طبیعیات کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ انیسویں صدی کے سائنس دانوں کے نزدیک یہ ممکن تھا کہ نفسیاتی مظاہر کی کوئی توجیہ دماغ کی طبیعیات اور کیمیا کے کے ذریعہ کی جا سکے۔ مگر اب کوانٹم نظریہ کے آنے کے بعد اس کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ بلکہ کوانٹم نظریہ کے متعلق یہ کہنا صحیح ہو گا کہ وہ فطرت (nature) کی کامل خارجی تشریح کی اجازت ہی نہیں دیتا۔ اس کے بعد ناممکن ہو گیا ہے کہ فلسفہ اور سائنس اپنی متشدد غیر جانب داری (armed neutrality) کو برقرار رکھ سکیں۔ ان کو اب یا تو دوست بن جانا چاہیے یا دشمن۔ اور ان کے درمیان دوستی اس کے بغیر نہیں ہو سکتی کہ سائنس وہ امتحان پاس کرے جو فلسفہ اس سے اس کے مقدمات کی بابت لے گا:
They cannot be friends unless science can pass the examination which philosophy must set to its premises.
(Physics & philosophy, pp.95-96.)
نیوٹن (1642-1727ء) کا ظہور تاریخ میں ایک نئے فکری دورکا آغاز تھا۔ اس کی تحقیق یہ تھی کہ کائنات اپنے متعین قوانین کے تحت عمل کرتی ہے ، کچھ طبیعی اسباب ہیں جو واقعات عالم کے پیچھے کارفرما ہیں۔ حتٰی کہ کائنات کا ماضی ، حال اور مستقبل سب علت و معلول کی مسلسل کڑیوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ نیوٹن اگرچہ ذاتی طور پر خدا کو مانتا تھا ، مگر بعد کے مفکرین نے کہاکہ جب کائنات کے متعلق معلوم ہو گیاکہ وہ معلوم طبیعی قوانین کے تحت حرکت کرتی ہے تو پھر ایک نامعلوم خدا کو ماننے کی کیا ضرورت۔ اس طرح افکار کی دنیا میں اصولِ تعلیل (principle of causation) کا رواج ہوا جو بعد کو پوری طرح خدا اور مذہب کا بدل سمجھ لیا گیا۔ نیوٹن پہلا شخص ہے جس نے اصولِ تعلیل کا علمی انطباق طبیعی دنیا پر کیا۔
ڈارون (1809-1882ء) پر منکشف ہوا کہ یہی اصولِ تعلیل حیاتیات کی دنیا میں بھی کام کر رہا ہے۔ یعنی انسان کی پیدائش اچانک ایک روز کسی خالق کے حکم سے نہیں ہوئی ، بلکہ وہ قوانین ارتقاء کے تحت لمبے عمل کا آخری نتیجہ تھی۔ ڈارون بذات خود اس عملِ ارتقاء کو ایک خالق (Creator) کا منصوبہ سمجھتا تھا۔ مگر بعد کے مفکرین نے خالق کے تصور کو ڈارون کا ذاتی عقیدہ قرار دیا اور نظریہ ارتقاء کو الحاد کی سب سے بڑی دلیل کے طور پر پیش کرنا شروع کر دیا۔ ان کے نزدیک اس دنیا کا خالق ’’ارتقا‘‘ تھا نہ کہ کوئی ’’خدا‘‘۔
مارکس (1818-1883ء) وہ شخص ہے جس نے اس اصولِ تعلیل کو انسان کی سماجی زندگی پر منطبق کیا اور کہاکہ انسانی سماج اور انسانی تاریخ بھی ایک ناگزیر مادی قانون کے تحت سفر کر رہے ہیں۔ سماجی سفر میں جدلیاتی عمل (dialectical process) کی کارفرمائی کا تصور اگرچہ اس نے ہیگل (1770-1831ء) سے لیا تھا جو اس عمل کے پیچھے ایک روح عالم (ورلڈ اسپرٹ) کو مانتا تھا۔ مگر مارکس نے روح عالم کے بجائے معاشی قوانین کو جدلیاتی عمل کا ہیرو قرار دیا اور اس طرح ہیگل کی تصوریت (آئیڈیلزم) کو خالص مادیت (میٹریلزم) میں بدل ڈالا۔
اس طرح تقریباً ڈیڑھ سو سال کے مسلسل عمل سے وہ فکر بنا جس کو جدید الحاد کہا جاتا ہے۔ اس الحاد کا کہنا تھاکہ اب علمی طور پر یہ ثابت ہو گیا ہے کہ اس کائنات کا خالق اور مالک کوئی خدا نہیں ہے بلکہ اسباب و علل (Cause and Effect) کا ایک طبیعی قانون ہے۔ اسی طبیعی قانون نے لمبے عمل کے بعد عالم کو بنایا۔ اسی قانون کے ذریعہ ارتقائی مراحل سے گزر کر انسان تیار ہوا۔ اور پھر یہی وہ قانون ہے جو سماجی عمل کے اندر کارفرما ہے اور انسانی سماج کو غیر ترقی یافتہ حالت سے ترقی یافتہ حالت کی طرف لے جا رہا ہے۔
مگر بیسویں صدی کے آتے ہی ان خیالات کی علمی بنیاد بالکل ڈھ گئی۔ اس صدی کے آغاز میں پلانک اور آئن سٹائن اور ہیزن برگ اور ڈیراک اور در فورڈ نے جو تحقیقات کیں اس کے بعد علم کا وہ پورا ڈھانچہ بدل گیا جس کے تحت مذکورہ ملحدانہ مفروضات قائم کر لیے گئے تھے۔ اب اصول تعلیل کا وہ نظریہ بے بنیاد ثابت ہو گیا جس کو انیسویں صدی میں خدا کا علمی بدل سمجھ لیا گیا تھا۔ برکلے کی تصوریت (idealism) سو برس کی معزولی کے بعد ، فلسفہ میں دوبارہ واپس آ گئی۔
انیسویں صدی علمی دنیا میں الحاد کی صدی تھی۔ یہی صدی ہے جس میں عالم فطرت کے بارے میں کثرت سے نئے حقائق دریافت ہوئے۔ یہ حقائق اگرچہ بذات خود مذہب سے متصادم نہیں تھے۔ مگر ملحد فلاسفہ نے اپنے تعبیری اضافہ سے ان کے اندر الحادی عناصر ڈھونڈ لیے۔ اب ایک پورا نظام فکر ترتیب دیا گیا جس کا خلاصہ یہ تھاکہ سائنسی دریافتوں نے مذہبی صداقت کی تردید کر دی ہے۔ اب انسان کو فکری یا عملی اعتبار سے مذہب کی کوئی ضرورت نہیں ، وہ سب کچھ جو مذہب دیتا تھا یا جس کے لیے مذہب کو ضروری سمجھ لیا گیا تھا، اب انسان اس کو زیادہ بہتر طور پر سائنس کے ذریعہ حاصل کر سکتا ہے۔ مگر بیسویں صدی میں علمی طور پر اس دعوے کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ بعد کی تحقیقات اور بعد کے تجربات نے ایک ایک کر کے ان تمام باتوں کی تردید کر دی جن کی امید سائنس سے قائم کر لی گئی تھی۔
کہا گیا تھاکہ دنیاکے وجود اور اس کی کارکردگی کی توجیہ کے لیے اب خدا کو ماننے کی کوئی ضرورت نہیں۔ سائنس کی دریافتیں اس کی توجیہ و تشریح کے لیے بالکل کافی ہیں۔ مگر جدید معلومات اور تجربات نے انسان کو یہ اقرار کرنے پر مجبور کیا ہے کہ خدا کو مانے بغیر اس دنیا کی توجیہ ممکن نہیں۔ حتیٰ کہ خدا اگر موجود نہ ہو تب بھی ہمیں اپنے مسئلہ کے حل کے لیے خدا کو ایجاد کرنا ہو گا:
If God did not exist, it would be necessary to invent Him
کہا گیا تھاکہ حقیقت اعلیٰ کا ادراک کرنے کے لیے انسانی علم سے اوپر کسی علم (الہام) کی ضرورت نہیں، سائنس تمام حقیقتوں کو جاننے کے لیے بالکل کافی ہے ۔ مگر آج سائنس داں متفقہ طور پر یہ اعلان کر رہے ہیں کہ سائنس ہم کو حقیقت کا صرف جزئی علم دیتی ہے:
Science gives us but a partial knowledge of reality
کہا گیا تھا کہ انسان کے اندر ذمہ داری کا احساس اور حق شناسی کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے خدا کا خوف دلانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ علمی اور تعلیمی ترقی خود بخود اس قسم کا احساس آدمی کے اندر پیدا کر دے گی۔ مگر تقریباً سو سالہ تجربہ کے بعد آج کا انسان یہ اقرار کر رہا ہے کہ علم اور اخلاقی احساس لازمی طور پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے نہیں ہیں:
Knowledge and moral responsibility are not necessarily interlinked
کہا گیا تھا کہ زندگی کے عیش کے لیے کل کی جنت کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں۔ تمدنی تعمیر کے جدید امکانات جو انسان کی دسترس میں آئے ہیں وہ ہماری اسی زمین کو ہمارے لیے جنت بنا دیں گے۔ مگر تمدنی ترقیوں کے بعد اس سے پیدا شدہ بے شمار مسائل نے انسان کو اس قدر پریشان کر دیا ہے کہ آج کا خوش نصیب انسان جس کو جدید معنوں میں تمام اسباب عیش حاصل ہیں ، وہ حیران ہو کر کہتا ہے کہ میں نے اپنی زندگی کو جدید معیار کے مطابق خوشگوار بنا لیا مگر اس کے باوجود میں اب بھی خوش نہیں:
My life is pleasant, yet, I am unhappy
کائنات کی مادی تشریح کی ہر کوشش ناکام ہو گئی۔ زندگی کو مادّی ذرائع سے بامعنی بنانا ممکن نہ ہو سکا۔ انسان نے خدا کے بغیر جینا چاہا مگر تجربات نے بتایا کہ خدا کے بغیر جینا اس کے لیے مقدر نہیں۔ ان واقعات نے موجودہ صدی میں ایک نیا فکری انقلاب برپا کیا ہے۔ علم کا مسافر، تھوڑی مدت تک مادیت کی راہوں میں بھٹکنے کے بعد دوبارہ مذہبی حقیقت کی طرف واپس آ رہا ہے۔ اب یہ ناممکن ہو گیا ہے کہ خالص علمی اور عقلی اعتبار سے ، انسان خدا پرستانہ زندگی کے سوا کسی اور زندگی پر مطمئن ہو سکے۔ آج کا انسان، کم از کم امکانی طور پر، خدا کے اتنا قریب آ گیا ہے کہ اس کے اور خدا کے درمیان منصوعی بے خبری کے سوا اور کوئی پردہ حائل نہیں۔