کائنات اور انسان
موجودہ اندازہ کے مطابق کائنات میں کم ازکم دس ارب کہکشائیں ہیں۔ ہرکہکشاں میں تقریباً ایک کھرب ستارے ہیں۔ ان میں سے اکثرستارے ہمارے سورج سے بہت زیادہ گرم اور بہت زیادہ بڑے ہیں جبکہ ہمارا سورج اتنا بڑا ہے کہ اس سے زمین جیسے بارہ لاکھ کرے بنائے جا سکتے ہیں۔ یہ ان گنت متحرک ستارے ایک دوسرے سے اتنے زیادہ دوری پر ہیں جیسے بحرالکاہل میں بکھرے ہوئے چند سمندری جہاز۔ اس ناقابل قیاس حد تک بڑی دنیا میں زمین کا چھوٹا ساکرہ ایک انتہائی نادر استثناء ہے جہاں پانی اور ہوا اور وہ دوسری چیزیں ہیں جو انسان جیسی مخلوق کے لیے زندگی کا سامان بن سکیں— یہ دنیا اپنی ساری عظمتوں اور حکمتوں کے باوجود انسان کے بغیر بالکل بے معنی ہے۔ مگر خود انسان کی زندگی اتنی زیادہ بے معنی معلوم ہوتی ہے کہ ساری کائنات میں بظاہر اس سے زیادہ بے معنی کوئی چیز نہیں۔
انسان اگر نہ ہوتو یہاں کوئی آنکھ نہ ہوگی جو دنیا کی رنگینیوں کو دیکھے اور کوئی کان نہ ہوگا جو اس کے نغموں کو سنے اور کوئی دماغ نہ ہوگا جو اس کی حکمت اور معنویت کوپائے۔ یہ دنیا ایک عظیم ترین آرٹ ہے مگر انسان کے بغیر وہ ایک ایسا آرٹ ہے جس کا کوئی جاننے والا نہیں۔ جس کی کوئی داد دینے والا نہیں۔
مگر خود انسان کی حقیقت کیاہے۔ زمین پر جتنے انسان پائے جاتے ہیں، اگر ان میں کا ہرشخص چھ فٹ لمبا، ڈھائی فٹ چوڑا اور ایک فٹ موٹا ہو تو انسان کی پوری آبادی کو بہ آسانی ایک ایسے صندوق میں بند کیا جا سکتا ہے جو لمبائی، چوڑائی اور بلندی میں ایک میل ہو۔ کائنات کی وسعتوں کے مقابلہ میں صندوق کس قدر چھوٹا ہے۔ پھر اگر اس کو کسی سمندر کے کنارے لے جا کر ایک ہلکا سا دھکا دیں تو یہ صندوق پانی کی گہرائی میں اس طرح گم ہو جائے گا جیسے بھری ہوئی بالٹی میں سرسوں کا ایک دانہ۔ صدیاں گزر جائیں گی، نسل انسانی اپنے مادی کفن میں لپٹی ہوئی ہمیشہ کے لیے پڑی رہے گی۔ دنیا کے ذہن سے یہ بھی محو ہو جائے گا کہ یہاں کبھی انسان جیسی کوئی مخلوق آباد تھی۔ سمندر کی سطح پر اسی طرح طوفان آتے رہیں گے۔ سورج اسی طرح چمکتا رہے گا۔ زمین کا کرہ بدستور اپنے محور پرگھومتا رہے گا۔ کائنات کی لامحدود پنہائیوں میں پھیلی ہوئی ان گنت دنیائیں اس حادثہ کو بس اتنی ہی اہمیت دیں گی جیسے زمین کے اوپر ایک چیونٹی کا کچل کر مر جانا۔ صدیوں کے بعد سمندر کے کنارے مٹی کا ایک ڈھیر زبان حال سے بتائے گا کہ یہ نسل انسانی کی قبر ہے جہاں وہ صدیوں پہلے ایک صندوق میں دفن کی گئی تھی۔ انسان باعتبار حقیقت انتہائی با معنی ہے، مگر انسان کائنات کے موجودہ نظام میں اپنی معنویت کو نہیں پاتا۔ یہاں انسان کی تمنائیں پوری نہیں ہوتیں۔ موجودہ دنیا اپنی تکمیل کے لیے ایک اور دنیا کی طالب ہے۔ موجودہ دنیا اپنی ساری معنویت کے باوجود بے معنی ہے اگر اس کے ساتھ آخرت کو نہ مانا جائے۔