الٰہی قانون
وضعی قانون کی ناکامی کے بارے میں اوپر میں نے جو اشارات کیے، وہ ہر وہ شخص جانتا ہے جس نے اصول قانون کا مطالعہ کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قانون دانوں کا یہ مفروضہ قطعی طور پر بے بنیاد ثابت ہو چکا ہے کہ انسان خود اپنے لیے قانونی معیار دریافت کر سکتا ہے۔
اس کے بعد ہمارے سامنے دوسرا مفروضہ آتا ہے اور وہ الٰہی قانون کا مفروضہ ہے۔ الٰہی قانون، جس کا محفوظ اور مستند متن قرآن کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ قانون کا ماخذ خدا کا الہام ہے۔ یعنی یہ کہ اس کائنات کا ایک خدا ہے۔ خدا نے الہام کے ذریعہ اپنا قانون اپنے رسول پر اتارا ہے، یہی قانون انسان کے لیے صحیح ترین دستور العمل ہے۔ اس قانون کی بنیاد پر قیاس اور اجتہاد کرکے مزید قانون سازی ہو سکتی ہے۔ مگر اصولی طور پر اس سے انحراف جائز نہیں۔
میں پیشگی طور پر اعتراف کرتا ہوں کہ خالص علمی اعتبار سے یہ ایک پیچیدہ دعویٰ ہے۔ مگر جو نکتہ خصوصی طور پر قابل لحاظ ہے، وہ یہ کہ اس کی پیچیدگی کے اسباب خود قانون میں ہونا ضروری نہیں۔ وہ اس واقعہ میں بھی ہو سکتے ہیں کہ ہماری عقل کچھ محدودیتوں (limitations) کا شکار ہے اور اس بنا پر وہ سارے حقائق کا براہ راست احاطہ نہیں کر سکتی۔ خوش قسمتی سے جدید سائنس کا موقف اس معاملہ میں ہماری تائید کرتا ہے۔ جدید سائنس نے یہ اعتراف کیا ہے کہ حقائق کی مقدار صرف اتنی ہی نہیں جو براہ راست ہمارے حسیاتی تجربہ میں آتی ہیں، بلکہ اس سے آگے اور بھی حقائق ہیں۔ مزید یہ کہ نامعلوم حقائق نہ صر ف معلوم حقائق سے مقدار میں زیادہ ہیں بلکہ وہ معلوم حقائق کے مقابلہ میں زیادہ اہم اور معنی خیز ہیں۔ امریکی پروفیسر فرڈبرتھولڈ(Fred Berthold) نے منطقی ثبوتیت(logical positivism) کے فلسفہ کو چند لفظوں میں اس طرح سمیٹا ہے:
The important is unknowable, and the knowable is unimportant
جو چیز اہم ہے وہ ناقابل دریافت ہے اور جو چیز قابل دریافت ہے، وہ اہم نہیں۔
19ویں صدی میں یہ فرض کر لیا گیا تھا کہ انسان کلی حقیقت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اگرچہ اس وقت بھی کلّی حقیقت عملاً انسان کی دسترس سے اتنی ہی دور تھی جتنی اس سے پہلے یا اس کے بعد رہی ہے۔ تاہم یہ یقین تھا کہ ایک نہ ایک دن انسان ضرور اسے دریافت کر لے گا۔ مگر بیسویں صدی کے سائنسداں خود ثبوتیت(positivism )یا فعلیت(operationalism) کے جھنڈے کے نیچے ہم کو بتا رہے ہیں کہ یہ فرض کر لینا بالکل غلط تھا کہ سائنس ہم کو آخری حقیقت (ultimate reality) یا خیر(good) کے بارے میں کوئی بات بتا سکتی ہے۔ وقت کا دوسرا فلسفہ جس کو وجودیت (existentialism)کہا جاتا ہے، وہ بھی ہم کو یقین دلا رہا ہے کہ اس کی کوئی صورت نہیں کہ محددد انسان خیر کا ایسا معیار(norm )دریافت کر سکے جو اس سے ماورا ہو۔
ان دریافتوں کے بعد انسانی علم اب جس مسلمہ پر پہنچا ہے، وہ یہ ہے کہ قطعی دلائل صرف اس میدان تحقیق میں قائم کیے جا سکتے ہیں جن کو برٹش فلاسفر برٹرینڈرسل (1872-1970) نے چیزوں کا علم(knowledge of things)کہا ہے۔ دوسرا میدان تحقیق جو اس کے الفاظ میں صداقتوں کا علم(knowledge of truths) سے تعلق رکھتا ہے، ان میں براہ راست دلیل قائم کرنا ممکن نہیں۔ چنانچہ مان لیا گیا ہے کہ ہم کسی معاملہ میں قطعیت(certainty) تک نہیں پہنچ سکتے۔ ہم صرف یہ کر سکتے ہیں کہ اغلب رائے (probable judgement )تک پہنچنے کی کوشش کریں۔ یہ بات صرف غیر مادی حقائق تک محدود نہیں ہے بلکہ بہت سی وہ چیزیں جن کو مادی حقائق میں شمار کیا جاتا ہے، ان کا معاملہ بھی تقریباً ایسا ہی ہے، جیسے روشنی، یا مقناطیسی قوت کی تشریح۔
میں یہ کہنے کی جرأت کروں گا کہ فیصلہ کی یہ بنیاد جو جدید علم نے فراہم کی ہے، وہ عین الٰہی قانون کے حق میں ہے۔
الٰہی قانون کا یہ مفروضہ کہ اس کائنات کا ایک خدا ہے، غالباً جدید انسان کے لیے اتنا زیادہ ناقابل فہم نہیں جتنا اس کا یہ جزء کہ خدا بذریعہ الہام اپنی مرضی انسان کے پاس بھیجتا ہے۔ اکثر بڑے بڑے سائنس داں کسی نہ کسی شکل میں خدا کو مانتے تھے۔ نیوٹن(1642-1727ء) کے نزدیک نظام شمسی کو متحرک کرنے کے لیے ایک خدائی ہاتھ(divine arm)کی ضرورت تھی۔ چارلس ڈارون (1809-1882ء) آغاز حیات کے لیے ایک خالق (creator) کو ضروری سمجھتا تھا۔البرٹ آئن سٹائن (1879-1954ء) کو ایک برترذہن(superior mind) کی جھلک دکھائی دی جو کائنات کے مظاہر میں اپنے کو ظاہر کر رہا تھا۔ سرجیمس جینز (1877-1946ء) کے مطالعہ نے اسے اس نتیجہ تک پہنچایا ہے کہ کائنات’’گریٹ مشین‘‘ سے زیادہ’’گریٹ تھاٹ‘‘ معلوم ہوتی ہے۔ سر آرتھر ایڈنگٹن (1882-1944ء) کے نزدیک جدید سائنس ہمیں اس حقیقت تک پہنچار ہی ہے کہ— کائنات کا مادہ ایک شے ذہنی ہے:
The stuff of the world is mind-stuff.
الفرڈ نارتھ وائٹ ہڈ(1861-1947ء) کے نزدیک جدید سائنسی معلومات یہ ثابت کر رہی ہیں کہ فطرت ایک زندہ حقیقت ہے، نہ کہ بے روح مادہ(nature is alive)۔
تاہم جہاں تک الہام کا تعلق ہے، مجھے اعتراف ہے کہ خالص علمی اعتبار سے یہ ایک نہایت پیچیدہ عقید ہے۔ یہ ان چیزوں میں سے نہیں جس کا عمومی مشاہدہ کرایا جا سکتا ہو۔ مگر یہ کہنا مبالغہ آمیز نہیں کہ ہمارے تجربہ میں ایسے بہت سے حقائق آتے ہیں جن سے استنباط کیا جا سکتا ہے کہ یہاں ایسی کوئی حقیقت پائی جاتی ہے جس کو الہام سے تعبیر کیا جا سکے۔ جدید میتھڈ الوجی اس کو تسلیم کرتی ہے کہ مستنبط حقائق(infered facts) بھی اتنے ہی یقینی ہو سکتے ہیں جتنے کہ مشہور حقائق(observed facts)۔ اس لیے ہمارے استدلال کی اہمیت اس سے کم نہیں ہوتی کہ وہ مشاہداتی نہیں ہیں بلکہ استنباطی نوعیت کے ہیں۔
19ویں صدی میں قانون تعلیل(principle of causation) کو خالق کا بدل سمجھ لیا گیا تھا۔ مگر موجودہ صدی میں ایسے بہت سے واقعات سائنس کے علم میں آئے ہیں جن کی توجیہ اسباب مادی کے عام اصول کے تحت نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر ریڈیم کے الیکٹران کا ٹوٹنا، جن کو معلوم قوانین کے تحت بیان کرنے کی ساری کوشش ناکام ہو چکی ہے۔ حتیٰ کہ ایک سائنس داں کو کہنا پڑا کہ ریڈیم کے کسی ٹکڑے میں کون سا الیکٹران کس وقت ٹوٹے گا، اس کا فیصلہ کرنا خدائوں کے اختیار میں ہے، خواہ وہ جو بھی ہوں:
It may rest on the knees of whatever goods there be
حیوانات کا مطالعہ بھی یہی بتاتا ہے۔ حیوانات کے بارے میں ثابت ہو چکا ہے کہ ان کے اندر جو حیات(instinct) ہوتی ہے، وہ اکتسابی نہیں۔ مثلاً شہد کی مکھی اپنے چھتہ کو ہشت پہل (hexagon) بناتی ہے۔ کسی تربیت نے اس کو نہیں بتایا کہ ہشت پہل خانہ(hexagon shelfe) اس کے مقصد کے لیے سب سے زیادہ موزوں ہے، حتیٰ کہ وہ اس کی معنویت کا بھی کوئی ذاتی شعورنہیں رکھتی۔ اس کے باوجود وہ اس ریاضیاتی طریق تعمیر میں اس طرح مصروف رہتی ہے جیسے اس سے کسی نے کہہ دیا ہو کہ تم ایسا ہی کرو۔ قرآن کے مطابق، معاملہ ایسا ہی ہے:وَأَوْحَى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ(16:68)۔یعنی، اور تمہارے رب نے شہد کی مکھی پر وحی کیا۔
اس قسم کے بے شمار واقعات ہیں جو ہمیں اس اغلبیت کی طرف لے جاتے ہیں کہ اشیاء سے باہر کوئی شعور ہے جو اشیاء کو ان کے وظیفۂ حیات کے بارے میں ہدایات دے رہا ہے۔ حتیٰ کہ سر آرتھر اڈنگٹن نے جدید کوانٹم نظریہ کو الہام کی سائنسی تصدیق قرار دیا ہے۔ قرآن کا یہ بیان بیسویں صدی کے انسان کے لیے شاید اس سے زیادہ قابل فہم ہے جتنا وہ ساتویں صدی کے انسان کے لیے ہو سکتا تھا:
وَأَوْحَى فِي كُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَهَا (41:12)، اور خدا نے ہر آسمان میں اس کا حکم اتارا۔
اس کے بعد جب ہم انسان کے مسئلہ پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی زندگی کے دو حصے ہیں۔ ایک وہ جس کو حیاتیاتی حصہ کہہ سکتے ہیں۔ دوسرا وہ جس کو نفسیاتی حصہ کہا جاتا ہے۔ انسانی زندگی کا حیاتیاتی حصہ ٹھیک اسی طرح مکمل طور پر خارجی قوانین کا پابند ہے جس طرح کائنات کی دوسری چیزیں اس کی پیروی کر رہی ہیں۔ وہ چیز جس کو میڈیکل سائنس کہا جاتا ہے، اس کا کام صرف یہ ہے کہ وہ ان مخفی قوانین فطرت کا پتہ لگائے جس کے تحت انسانی زندگی کا حیاتیاتی حصہ کام کرتا ہے اور اس کو اس حصہ انسانی پر استعمال کرے۔ اب اگر یہ مان لیا جائے کہ وہ قانون فطرت جو ستاروں اور سیاروں سے لے کر انسان کے حیاتیاتی حصہ تک کار فرما ہے، اس کا ماخذ وہ الہام ہے جو کائناتی شعور کی طرف سے ہر ایک کو پہنچ رہا ہے تو اس کے بعد، اسی پر قیاس کرتے ہوئے، یہ ماننا خود بخود آسان ہو جاتا ہے کہ انسان کے نفسیاتی حصہ کے لیے قانون کا تعین بھی اسی شعور کی طرف سے ہو سکتا ہے اور اسی کی طرف سے ہونا چاہیے۔
خالص عقلی نقطۂ نظر سے کہا جا سکتا ہے کہ اس استدلال کی بنیاد ایک ’’قیاس‘‘ پر قائم ہے۔ مگر یہ ثابت ہو چکا ہے کہ انسان کی ساخت کچھ اس ڈھنگ پر ہوئی ہے کہ قیاسی استدلال سے مفر اس کے لیے ممکن نہیں۔ اگر وہ قیاسی استد لال کو تسلیم کرنے سے انکار کرے تو لازماً اس کو تشکیک کی پناہ گاہ میں جانا پڑے گا۔ جو عملی طور پر ناممکن ہے۔
قرآن نے بھی اس معاملہ میں جواب کا یہی انداز اختیار کیا ہے: وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا (17:85)۔یعنی، تم سے وحی کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ کہہ دو کہ وحی خدا کے حکم سے ہے اور تم کو صرف تھوڑا علم دیا گیا ہے۔
یہاں وحی سے متعلق سوال کے جواب میں دو باتیں کہی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ یہ امر رب ہے جس طرح سارا نظام عالم امر رب(قانون فطرت) کے ماتحت ہے۔ یہ کوئی منفرد چیز نہیں بلکہ انسانی دائرہ میں وہی چیز ہے جس کا مشاہدہ تم کائنات کے دائرہ میں کر رہے ہو۔ دوسرے جزء کا مطلب یہ ہے کہ وحی کو عقلی طور پر سمجھنے کی پہلی شرط یہ ہے کہ تم اس حقیقت واقعہ کو تسلیم کرو کہ انسان کو علم قلیل دیا گیا ہے۔ اس کو علم کثیر نہیں دیا گیا۔ اس واقعہ کو مان کر چلو گے تو وحی کی حقیقت سمجھ جائو گے اور اگر اس واقعہ کا انکار کرکے سمجھنا چاہو تو تم اس کو نہیں سمجھ سکتے۔
حیرت انگیز بات ہے کہ تیرہ سو برس کا اعلان آج سائنس کے جدید ترین مرحلہ میں اپنی صداقت کو مزید شدت کے ساتھ ثابت کر رہا ہے ۔ پہلی جنگ عظیم(1914-18ء) کے ساتھ جس نئے دور سائنس کا آغاز ہوا ہے، اس نے قطعیت کے ساتھ تسلیم کر لیا ہے کہ انسان بعض حیاتیاتی اور نفسیاتی محدودیتوں کا شکار ہے، اس لیے وہ سارے حقائق کو اپنے محسوسات کی گرفت میں نہیں لا سکتا۔ ضروری ہے کہ اپنے قلت علم کی اس کمی کو پورا کرنے کے لیے وہ مروجہ سائنسی طریقوں پر بعض ایسے طریقوں کا اضافہ کرے جو انیسویں صدی تک غیر سائنسی سمجھے جاتے تھے۔
آئن سٹائن نے کائنات کے بارے میں جو انقلاب انگیز سائنسی نظریات وضع کیے، اس کے سلسلے میں اس نے اعتراف کیا کہ یہ کام اس طریقہ کی پابندی کرکے نہیں ہو سکتا جو مثال کے طور پر، حرکیات گیس کا نظریہ (Kinetic Theory of Gases) میں کارآمد ہے۔ یہاں اس نے ترکیبی طریقہ(synthetic method) کے بجائے تحلیلی طریقہ (analytical method) سے کام لیا۔ اس نے سائنسی نظریات کی دو تقسیم کیں۔ ایک عمارتی نظریات(constructive theories) دوسرے اصولی نظریات(principle theories) ۔اس نے کہا کہ نظریہ اضافیت (relativity) کو سمجھنے کے لیے صرف دوسرے قسم کا نظریہ ہی کام دے سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس نے کائنات کے گہرے حقائق کو سمجھنے کے لیے سائنسی مشاہدہ کے بجائے ایک قسم کے سائنسی تصور(scientific contemplation)کی وکالت کی۔ چنانچہ ایک پروفیسر نے آئن سٹائن کے نظریہ کا خلاصہ ان لفظوں میں بیان کیا ہے:
In dealings with the eternal verities, the area of experiment is reduced and that of contemplation enhanced.
ابدی حقیقتوں کی بحث میں تجربہ کا دائرہ گھٹ جاتا ہے اورتصور کا دائرہ بڑھ جاتا ہے۔
قرآن کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک الہامی قانون ہے جو انسان کی رہنمائی کے لیے اتارا گیا ہے۔ یہ بات کہ وہ فی الواقع ایک الہامی قانون ہے، اس کے لیے خود قرآن نے بڑی عجیب دلیل دی ہے۔ اس نے اعلان کیا ہے کہ انسان کبھی بھی اس کے جیسی کتاب نہ بنا سکے گا، خواہ وہ اس کے لیے کتنی ہی کوشش کر ڈالے:وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (2:23)۔یعنی، اور اگر تم اس کتاب کے بارے میں شک میں ہو جو ہم نے اپنے بندہ پر اتاری ہے تو اس جیسی ایک سورت بنا کر لے آئو۔ قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا (17:88)۔یعنی،کہہ دو اگر آدمی اور جن اس لیے جمع ہوں کہ ایسا قرآن بنالائیں تو وہ ہر گز نہ لاسکیں گے خواہ وہ سب ایک دوسرے کی مدد گار ہوں۔
انسائیکلوپیڈیا آف فلاسفی کے مقالہ نگار کے الفاظ میں، فلسفیانہ اعتبار سے جو بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ کہ وہ کیا معیار ہے جس پر الہام کے دعوے کو جانچا جا سکے:
The main philosophical question that arises concerns the criteria by which revelation claims may be judged.
قرآن کے سلسلے میں اگر ہم ایسا کر سکیں کہ اس کے مذکورہ بالا دعوے کو اس جانچ کا معیار مان لیں تو یہ معیار حیرت انگیز طور پر یہ ثابت کر رہا ہے کہ وہ خدائی الہام ہے۔ پچھلی 13 سو برس کی تاریخ میں قرآن اور اسلام کے بے شمار دشمن پیدا ہوئے۔ وہ اس چیلنج کے جواب میں قرآن جیسی ایک کتاب عربی زبان میں تیار کرکے نہایت آسانی سے اس کو شکست دے سکتے تھے۔ اور یقیناً بہت سے لوگوں نے اس کی کوششیں بھی کیں۔ مگر تاریخ بتاتی ہے کہ مسیلمہ(وفات633ء) اور ابن مقفع (724-761ء) سے لے کر صلیبی جنگوں (1095-1271ء) کے بعد پیدا ہونے والے مسیحی مستشرقین تک کوئی بھی اس میں کامیاب نہ ہو سکا۔
اب تک کے مطالعہ نے ہمیں جہاں پہنچایا ہے، اس میں اگر ایک اور قرینہ کو ملا لیا جائے تو شاید یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ زیر بحث مسئلہ بڑی حد تک قابل فہم ہو جاتا ہے۔ وہ یہ کہ الٰہی قانون نے جو قانونی اصول اب سے ڈیڑھ ہزار برس پہلے متعین کیے تھے، وہ حیرت انگیز طور پر اب بھی اپنی صحت کو باقی رکھے ہوئے ہیں ۔ یہی نہیں بلکہ اس درمیان میں وضعی قانون نے اس کو رد کر کے جو متبادل اصول مقرر کیے تھے وہ دو سو سالہ تجربہ میں ناکام ثابت ہوگئے اور اب علم کا دریا دوبارہ اس سمت میں جا رہا ہے جہاں اس نے الٰہی قانون کو چھوڑا تھا۔ وضعی قانون کے مقابلہ میں الٰہی قانون کی یہ ابدیت اسی وقت قابل فہم ہو سکتی ہے جب کہ یہ مانا جائے کہ اس کا سرچشمہ انسانی ذہن کے باہر کسی ابدی ذہن میں پایا جاتا ہے۔
میں یہاں چند مثالیں دوں گا:
1۔ الٰہی قانون میں فرد کی آزادی کو خدائی حکم کے پابند کیا گیا ہے:
يَقُولُونَ هَلْ لَنَا مِنَ الْأَمْرِ مِنْ شَيْءٍ قُلْ إِنَّ الْأَمْرَ كُلَّهُ لِلَّهِ(3:154)۔یعنی،کہتے ہیں کیا امر کچھ ہمارے ہاتھ میں بھی ہے۔ کہہ دو امر سب کا سب اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
یورپ کی نشاۃ ثانیہ کے بعد عالمی ذہن میں جو انقلاب آیا، اس نے اس اصول کو غلامی سے تعبیر کیا۔ اس نے اعلان کیا کہ آزادی سب سے بڑی انسانی قدر ہے۔ فرانس کے انقلاب (1789ء) سے لے کر اب تک اس اصول کو دو سو برس تجربہ کرنے کا موقع ملا۔ مگر اس تجربہ کا آخری نتیجہ یہ ہے کہ اب ایسے محققین پیدا ہو رہے ہیں جو فرد کی آزادی کو بے معنی قرار دے رہے ہیں۔ پروفیسراسکنر(1904-1990ء) کا کہنا ہے کہ— ہم آزادی کا تحمل نہیں کر سکتے:
We can`t afford freedom.
اٹھارویں اور انیسویں صدی کے مفکرین کے برعکس اسکنر(B. F. Skinner) کا کہنا ہے کہ آزادی کوئی خیر اعلیٰ(summum bonum) نہیں۔ انسان کو لامحدود آزادی نہیں بلکہ پابند نظام(disciplined culture) چاہیے۔ انسانی فکر کی یہ واپسی الٰہی قانون کی ہدایت کا بالواسطہ اعتراف ہے۔
2۔ الٰہی قانون کی رو سے مرد اور عورت کا دائرۂ کار الگ الگ ہے اور عملی زندگی میں مرد کو عورت پر فوقیت دی گئی ہے:
الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ(4:34)۔یعنی،مرد قوام ہیں عورتوں کے اوپر۔
وضعی قوانین نے اس اصول کو مکمل طور پر غلط قرار دیا۔ مگر سو برس کے تجربہ نے بتایا کہ الٰہی قانون ہی اس معاملہ میں حقیقت سے قریب تر ہے۔ آزادی نسواں کی تحریک کی تمام تر کامیابیوں کے باوجود آج بھی’’مہذب‘‘ دنیا میں دہی جنس برتر(dominant sex) کی حیثیت رکھتا ہے۔ آزادی نسواں کے علم بردار یہ کہتے تھے کہ عورت اور مرد کا فرق محض سماجی حالات کی پیداوار ہے۔ مگر موجودہ زمانہ میں، مختلف متعلقہ شعبوں میں، اس مسئلہ کا جو گہرا مطالعہ کیا گیا ہے، اس سے ثابت ہوا ہے کہ صنفی فرق کے پیچھے حیاتیاتی عوامل (biological factors) کار فرما ہیں۔ ہارورڈ یونیورسٹی میں نفسیات کے پروفیسر جیروم کاگن(پیدائش1929ء) کے مطالعہ نے اسے بتایا ہے:
Some of the psychological differences between men and women may not be the product of experience alone but of subtle biological differences. p. 33
مرو اور عوروں میں بعض نفسیاتی فرق محض معاشرتی تجربات کی وجہ سے نہیں ہو سکتے، بلکہ وہ لطیف قسم کے حیاتیاتی فرق کی پیداوار ہیں۔
ایک امریکی سرجن Edgar Berman کا فیصلہ ہے کہ ’’ عورتیں اپنی ہارمون کیمسٹری کی وجہ سے اقتدار کے منصب کے لیے جذباتی ثابت ہو سکتی ہیں‘‘:
Because of their hormonal chemistry women might be too emotional or positions of power.
(Time Magazine. March 20. 1972, p.28)
امریکا میں آزادیٔ نسواں کی تحریک کافی طاقتور ہے مگر اب اس کے حامی محسوس کرنے لگے ہیں کہ ان کی راہ کی اصل رکاوٹ سماج یا قانون نہیں بلکہ خود فطرت ہے۔ فطری طور پر ہی ایسا ہے کہ عورت بعض حیاتیاتی محدودیت(limitations of biology) کا شکار ہے۔ میل ہارمون اور فیمیل ہارمون کا فرق دونوں میں زندگی کے آغاز ہی سے موجود ہوتا ہے۔ چنانچہ تحریک نسواں کے پرجوش حامی کہنے لگے ہیں کہ فطرت ظالم ہے۔ ہمیں چاہیے کہ پیدائشی سائنس (science of eugenics) کے ذریعے جینٹک کوڈ کو بدل دیں اور نئے قسم کے مرد اور نئی قسم کی عورتیں پیدا کریں۔ یہ ہے وہ آخری انجام جو امریکی عورت کے نعرہ ’’پالیسی بنائو کافی نہ بنائو‘‘ (make policy not coffee)کا دنیا کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک میں ہواہے۔
یہ واقعہ اس بات کا ایک تجرباتی قرینہ ہے کہ وضعی قانون کے مقابلہ میں الٰہی قانون میں فطرت کی رعایت زیادہ پائی جاتی ہے۔
3۔ الٰہی قانون میں سزا کا خاص مقصد نَکال(دوسروں کے لیے عبرت) بتایا گیا ہے (البقرہ،2:66)۔ اسی لیے الٰہی قانون نے بعض بڑے جرائم کی نہایت سخت سزائیں مقرر کی ہیں تاکہ ایک کا انجام دیکھ کر دوسرے اس سے رک جائیں۔ مگر جدید دور میں اس کو رد کر دیا گیا۔ پہلا نمایاں شخص جس نے مجرمین کی سزا میں تخفیف کی وکالت کی وہ اٹلی کا ماہر جُرمیات کیساری بیکریا (1738-1794ء) تھا۔ اس کے بعد سے اب تک جُرمیات (criminalogy) کے موضوع پر بہت کام ہوا ہے۔ ماہرین کا عام طور پر یہ خیال ہوگیا تھا کہ جرم کوئی’’ارادی واقعہ‘‘ نہیں، اس کے اسباب حیاتیاتی ساخت، ذہنی بیماری، معاشی تنگی، سماجی حالات وغیرہ میں ہوتے ہیں۔ اس لیے مجرم کو سزا دینے کے بجائے اس کا ’’علاج‘‘ کرنا چاہیے۔ حتیٰ کہ تین درجن سے زیادہ ایسے ملک ہیں جھنوں نے موت کی سزا کو اپنے یہاں ختم کر دیا ہے۔ اگرچہ یہ خاتمہ بھی صرف اخلاقی جرائم کی حد تک ہوا ہے۔ سیاسی اور فوجی جرائم کے سلسلے میں اب بھی ہر ملک ضروری سمجھتا ہے کہ مجرم کو سخت ترین سزا دی جائے۔
مگر جنگ عظیم ثانی کے بعد جرائم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کو روکنے کی تمام معالجاتی تدبیریں ناکام ہو چکی ہیں۔ چنانچہ کئی ملکوں مثلا ڈیلاویر(Delaware) اورسری لنکا میں پہلے سزائے موت ختم کی گئی تھی اور اب اس کو دوبارہ بحال کر دیا گیا ہے۔ ماہرین قانون میں دوبارہ ایسے لوگ پیدا ہو رہے ہیں جو اس کی اہمیت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ ایک بیرسٹر نے کہا ہے’’لوگوں میں یہ عام تاثر ہونا کہ کسی بھی شخص کو قتل کرنا، مجرم کو موت کی سزا کا مستحق بناتا ہے، اپنے اندر بہت بڑی مانع قدر(deterrent value) رکھتا ہے‘‘۔یہ تجربہ اس مفروضہ کی تصدیق کرتا ہے کہ جرم کی سزا کا مسئلہ جن پیچیدہ سوالات سے گہری واقفیت چاہتا ہے، الٰہی قانون میں اس کی رعایت وضعی قانون سے زیادہ پائی جاتی ہے۔
اوپر جو کچھ عرض کیا گیا، اس کا خلاصہ مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کیا جا سکتا ہے:
1۔ وضعی قانون کوئی قابل قبول اصول قانون دریافت کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔ مزید یہ کہ وہ آئندہ بھی ناکام ہی رہے گا۔ کیوں کہ انسان کی محدودیت یہاں راہ میں حائل ہو رہی ہے۔
2۔ وہ واقعہ جس نے انسان کے لیے اصول قانون کی دریافت کو ناممکن بنا دیا ہے، اسی میں الٰہی قانون کی صداقت کا قرینہ چھپا ہوا ہے۔ کیوں کہ ایک طرف ذہن انسانی کی محدودیت اور دوسری طرف حقائق کی وسعت ظاہر کر رہی ہے کہ کوئی ایسا ذہن ہو جو انسانی ذہن سے برتر ہو اور جس کے اندر سارے حقائق موجود ہوں۔
3۔ کائنات میں ایسے واقعات ہیں جو فطرت اور جبلّت کی سطح پر الہام کا امکان ثابت کر رہے ہیں۔ الٰہی قانون اس میں صرف یہ اضافہ کرتا ہے کہ اس الہام کو انسان تک وسیع کر دیتا ہے۔ یہ واقعہ اس مفروضہ کو مزید موید کرتا ہے کہ موجودہ الٰہی قانون میں کچھ ایسے برتر امتیازی خصوصیات ہیں جو اسی وقت قابل فہم ہو سکتی ہیں جبکہ یہ مانا جائے کہ وہ ایسے ذہن سے نکلا ہے جو انسان کے مقابلہ میں زیادہ وسیع طور پر حقائق کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔