مذہب پر علمی استدلال
قدیم زمانہ میں پانی کو صرف پانی سمجھا جاتا تھا۔ انیسویں صدی میں خوردبین ایجاد ہوئی۔ خوردبین سے جب پانی کو دیکھا گیا تو معلوم ہوا کہ پانی صرف پانی نہیں ہے۔ اس میں بے شمار زندہ بیکٹیریا بھی موجود ہیں۔ اسی طرح آسمان پر جو ستارے نظر آتے ہیں، آدمی نے سمجھا کہ وہ تعداد میں اتنے ہی ہیں جتناکہ بظاہر ننگی آنکھ سے دکھائی دیتے ہیں۔ مگر موجودہ زمانہ میں جب آسمان کا مشاہدہ دور بین سے کیا گیا تو معلوم ہوا کہ ستارے اس سے بہت زیادہ تعداد میں ہیں جو بظاہر خالی آنکھ سے نظر آتے ہیں۔
یہ ایک سادہ سی مثال ہے جس سے قدیم زمانہ اور جدید زمانہ کے فرق کو سمجھا جا سکتا ہے۔ جدید زمانہ کے یہ مشاہدات یقینی طور پر بتا رہے تھے کہ حقائق اس سے بہت زیادہ ہیں جو انسان نے اپنے سادہ مشاہدہ کے دائرے میں اس سے پہلے سمجھ رکھا تھا ۔ مگر جو لوگ ان نئے مشاہدات کو سامنے لا رہے تھے وہ اپنی دریافتوں کی بنا پر اتنے زیادہ جوش میں تھے کہ انھوں نے ایک اور دعویٰ کر دیا۔ انھوں نے کہاکہ حقیقت وہی ہے جو براہ راست ہمارے مشاہدے میں آئے۔ جو چیز ہمارے براہ راست مشاہدے اور تجربے میں نہ آئے وہ محض مفروضہ ہے ، اس کا کوئی وجود نہیں۔
انیسویں صدی میں یہ دعویٰ بہت زور و شور کے ساتھ کیا گیا۔ اس دعویٰ کی زد سب سے زیادہ مذہب پر پڑتی تھی۔ مذہب جن اعتقادات کا مبلغ ہے وہ سب غیبی اعتقادات ہیں ، یعنی وہ براہ راست ہمارے تجربہ اورمشاہدہ میں نہیں آتے۔ اس بنا پر بہت سے لوگوں نے سمجھ لیا کہ مذہب ایک فرضی چیز ہے ، اس کا کوئی حقیقی وجود نہیں۔
مگر بیسویں صدی کی تحقیقات نے اس صورت حال کو بالکل بدل دیا ہے۔ مزید مطالعہ کے بعد انسان کو یہ معلوم ہوا کہ حقائق صرف اتنے ہی نہیں ہیں جو براہ راست ہمارے مشاہدہ میں آتے ہیں بلکہ ان مشاہدات کے ماورا بھی بہت سی حقیقتیں ہیں بلکہ تمام بڑی بڑی حقیقتیں مشاہدات کے ماورا ہی پائی جاتی ہیں۔
برٹرینڈرسل کے الفاظ میں علم کی دو قسمیں ہیں : چیزوں کا علم (Knowledge of things) اور صداقتوں کا علم (Knowledge of truths) ۔ہم براہ راست طور پر صرف ’’چیزوں‘‘ کو دیکھ سکتے ہیں۔ اس کے بعد جو ’’صداقتیں‘‘ ہیں ، وہ صرف بالواسطہ مشاہدہ ، بالفاظ دیگر صرف استنباط (inference) کے ذریعہ جانی جا سکتی ہیں ۔ مثلاً (light) کشش (gravity) مقناطیسیت (magnetism) جوہری طاقت (nuclear energy) وغیرہ۔ یہ سب بلاشبہ کائنات کا مسلمہ حقیقتیں ہیں ، مگر انسان ان کو براہ راست طور پر نہیں دیکھتا۔ وہ صرف ان کے اثرات (effects) کے ذریعہ ان کوجانتا ہے۔ انسان کے تجربہ میں کچھ ’’چیزیں‘‘ آتی ہیں جن سے وہ استنباط کرتا ہے کہ فلاں فلاں ’’صداقتیں‘‘ یہاں پائی جا رہی ہیں۔
بیسویں صدی میں علم کی اس تبدیلی نے بنیادی طور پر سارے معاملہ کو بدل دیا۔ انسان مجبور ہو گیا کہ وہ ایسی چیزوں کے وجود کا اعتراف کرے جن کو وہ براہ راست نہیں دیکھتا۔ البتہ بالواسطہ تجربات بتاتے ہیںکہ فلاں قسم کی حقیقت یہاں موجود ہونی چاہیے۔ علم کی اس تبدیلی نے تاریخ میں پہلی بار یہ کیا کہ مشاہداتی حقیقت اور غیبی حقیقت کے فرق کو ختم کر دیا۔ اب نہ دیکھی جانے والی چیز بھی اتنی ہی اہم بن گئی جتنی کہ دیکھی جانے والی چیز۔ انسان یہ ماننے پر مجبور ہو گیا کہ بالواسطہ استدلال یا استنباطی استدلال (inferential argument) بھی علمی طور پر اتنا ہی معقول (valid) ہے جتنا کہ براہ راست استدلال (direct argument) ۔
علم میں اس تبدیلی نے موجودہ زمانہ میں الٰہیاتی استدلال کو عین سائنٹفک استدلال بنا دیا ہے۔ مثلاً خدا کے وجود پر علمائے الٰہیات کا سب سے بڑا استدلال وہ ہے جس کو فلاسفہ نظم سے استدلال (argument from design) کہتے ہیں۔ یہ استدلال انیسویں صدی کے پرجوش علماء نے نہیں مانا۔ انھوں نے کہاکہ یہ استنباطی استدلال ہے اور استنباطی استدلال علمی طور پر معقول نہیں۔ مگر موجودہ زمانہ میں اس اعتراض کی بنیاد ختم ہو چکی ہے۔ آج کا انسان مجبور ہے کہ وہ نظم کائنات سے ناظم کائنات پر استدلال کو اتنا ہی علمی اور معقول مانے جتنا کہ وہ مشین کے پہیہ کی حرکت سے (flow of electron) کے نظریہ کو معقول سمجھتا ہے۔
قدیم یونان کے فلسفیوں نے دنیا کے بارے میں بہت سے مفروضات قائم کیے تھے جو بعد کی تحقیق سے غلط ثابت ہو گئے۔ مثال کے طور پر یہ نظر یہ کہ زمین مرکز میں ہے اور سورج اس کے گرد گھوم رہا ہے۔ مگر مذہب کا معاملہ سراسر اس سے مختلف ہے۔ مذہب کے جو حقیقی عقائد ہیں وہ بعد کی تحقیق سے مزید ثابت ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو مذہب کی صداقت کو تجرباتی سطح پر مدلل کر رہا ہے۔ مذہبی عقائد اگر بے بنیاد ہوتے تو بعد کی علمی تحقیقات ان کی تردید کرتیں نہ کہ تصدیق۔ اس واضح شہادت کے بعد جو لوگ مذہب کی صداقت کونہ مانیں ان کا کیس ہٹ دھرمی کا کیس ہے نہ کہ علم اور معقولیت کا کیس۔