خدا کی تمثیل
خدا کی تمثیل خود انسان کا اپنا وجود ہے۔ انسان کا وجود خدا کے وجود کی دلیل ہے۔ ’’خدا‘‘ کیا ہے۔ ایک زندہ ہستی جو خود اپنی ذات میں قائم ہو۔ جو سوچے۔ جودیکھے اور سنے۔ جو اپنے ارادہ کے تحت عمل کرنے کی طاقت رکھتا ہو۔ جو خود اپنے آپ کو جانتا ہو اور وسروں سے بخوبی طور پر واقف ہو۔ جو تمام موجودات سے الگ اپنی ایک ’’انا‘‘ رکھتا ہو۔
یہ سب کچھ عین وہی ہے جس کو’’انسان‘‘ کی صورت میں ہم میں سے ہر شخص جانتا ہے۔ ہر آدمی’’میں‘‘ سے بخوبی طور پر واقف ہے۔ خدا پر ایمان اسی’’میں‘‘ کی ایک برتر صورت پر یقین رکھنا ہے۔ انسان جب صفات اور خصوصیات کے ساتھ اپنی ذات کا تجربہ کر رہاہے، انھیں صفات اور خصوصیات والی ایک برتر ذات ہے جس کو ہم خدا یا اللہ کہتے ہیں۔
اگر میرا وجود یقینی ہے تو خدا کا وجود کیوں یقینی نہیں۔ اگر میں ایک مقام پر بیٹھ کر کائنات کو دیکھ رہا ہوں تو اس میں کیا تعجب ہے کہ اسی طرح ایک عظیم تر ہستی کہیں متمکن ہو کر کائنات کا مشاہدہ کر رہی ہو۔ اگر میں ریموٹ کنٹرول سسٹم کے ذریعہ خلا میں ایک مشین کو چلاتا ہوں تو اس میں کیا تعجب ہے کہ اسی طرح ایک خدا اپنے نظام کے تحت کائنات کو چلا رہا ہو۔ اگر میں اپنے تصور عدل کے مطابق کسی کو سزا یا انعام دیتا ہوں تو اس میں استبعاد کیا ہے کہ اسی طرح ایک طاقتور خدا تمام انسانوں پر اپنے تصور عدل کے مطابق سزا اور جزا کا نفاذ کرے۔
حقیقت یہ ہے کہ خدا کو ماننا ایسا ہی ہے جیسے اپنے آپ کو ماننا۔ خدا کے وجود کو تسلیم کرنا ایساہی ہے جیسے انسان کے وجود کو تسلیم کرنا۔ خدا کو ماننا بلاشبہ عجیب ہے۔ مگر انسان کو ماننا بھی اتناہی عجیب ہے۔ پھر ایک عجیب کو مان لینے کے بعد دوسرے عجیب کو ماننے میں کیا رکاوٹ۔