اسلام میں سائنس کی اہمیت
اسلام میں سائنس کی اہمیت کے متعدد وجوہ ہیں۔ یہاں چند چیزوں کا ذکر کیا جاتا ہے:
1۔ سائنس، سادہ طور پر، عالم حقائق کے مطالعہ کا نام ہے۔ قرآن میں یہی صفت اہل ایمان کی بتائی گئی ہے کہ وہ زمین و آسمان کی بناوٹ پر غور کرتے ہیں:وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ (3:191)۔ اس اعتبار سے ایک سائنس داں وہی کام کرتا ہے جو ایک مومن کرتا ہے۔ تاہم دونوں میں بہت بڑا فرق ہے۔ سائنس داں کا عمل صرف تحقیق کے لیے ہوتا ہے اور مومن کا عمل عبرت کے لیے۔ سائنس داں کے پیش نظر علم برائے علم ہوتا ہے اور مومن کے پیش نظر علم برائے مقصد۔ سائنس داں اضافۂ علم پر مطمئن ہوتا ہے اور مومن اضافۂ ایمان پر۔
ذہن کا یہ فرق دونوں کے طرز مطالعہ میں بہت بڑا فرق پیدا کر دیتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سائنسداں اشیاء کی ماہیئت کو چھوڑ کر صرف اشیاء کے خواص کے مطالعہ تک اپنے کو محدود رکھتا ہے۔ وہ اشیاء کی کارکردگی کو ان کی معنویت سے جدا کر دیتا ہے۔ سائنس داں کو ایسا اس لیے کرنا پڑتا ہے کہ وہ صرف اپنی عقل کی رہنمائی میں کائنات کو دیکھنا چاہتا ہے۔ اور انسان کو عقل قطعیت کے ساتھ صرف قابل تجربہ چیزوں کو دیکھ پاتی ہے، اس لیے اس کے لیے اس کے سوا چارہ نہیں کہ وہ کائنات کے قابل تجربہ پہلوئوں تک اپنے مطالعہ کو محدود رکھے۔ مگر مومن اپنی عقل کے ساتھ نبوت کی رہنمائی کو تسلیم کیے ہوئے ہوتا ہے۔ اس لیے وہ خواص اشیاء سے گزر کر حقائق اشیاء تک اپنے مطالعہ کو لے جاتا ہے۔ وہ ’’مخلوق‘‘ کو اس کے’’خالق‘‘ کے ساتھ شامل کرکے دیکھتا ہے۔ یہ فرق مومن کے مشاہدہ ٔکائنات میں زبردست معنویت پیدا کر دیتا ہے۔ اس کو ساری کائنات صفات خداوندی کا ظہور نظر آنے لگتی ہے۔ کائنات کو پاتے ہی وہ اس خدا کو بھی پا لیتا ہے جس پر وہ پیغمبر کے واسطہ سے ایمان لایا ہے۔
2۔ قرآن میں کائناتی واقعات کو قرآنی پیغام کے حق میں بطور استد لال پیش کیا گیا ہے۔ گویا قرآن میں جو بات نظری طور پر کہی گئی ہے، کائنات اس کے حق میں واقعاتی دلیل ہے۔ اس اعتبار سے پوری سائنس قرآن کا علم کلام ہے۔ کیوں کہ سائنس کسی سائنس داں کے خود ساختہ علم کا نام نہیں بلکہ وہ خدا کی کائنات میں کام کرنے والے قوانین کی تلاش کا نام ہے۔ ان قوانین کا جو حصہ بھی سائنس دریافت کرتی ہے وہ خدا کی کارفرمائیوں کی ایک جھلک ہوتی ہے، وہ خدا کی آیتوں میں سے ایک آیت(نشانی) کا انسانی علم میں آنا ہوتا ہے۔ سائنس داں کے لیے سائنس علم برائے علم ہے یا زیادہ سے زیادہ علم برائے تعمیر دنیا۔ مگر مومن کے لیے سائنس ایک علمی ہتھیار ہے جس سے وہ دعوت حق کی جدوجہد میں کام لیتا ہے، جس سے وہ اپنی بات کو مدلل کرکے لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے۔
3۔ سائنس کا تیسرا پہلو، اسلامی نقطۂ نظر سے، وہی ہے جس کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا۔ یعنی وہ موجودہ زمانہ میں قوت کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لیے اسلام اور مسلمانوں کو سربلند کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سائنس کی قوت کو پوری طرح فراہم کیا جائے۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب کہ مسلمان سائنس کی تحقیق و تحصیل میں آگے بڑھیں، حتیٰ کہ وہ اس میں امامت کا درجہ حاصل کر لیں۔
انیسویں صدی کے نصف آخر اور بیسویں صدی کے نصف اول میں ساری مسلم دنیا میں سیاسی آزادی کی تحریکیں اٹھیں۔ ان تحریکوں کے مسلم قائدین کا یہ خیال تھا کہ بیرونی سیاسی قبضہ سے آزاد ہونے کا نام غلبہ ہے۔ وہ سیاسی آزادی کو اسلام کی سربلندی کے ہم معنی سمجھتے ہیں۔ مگر آج جب کہ بے شمار قربانیوں کے بعد تمام مسلم ممالک آزاد ہو چکے ہیں، آج بھی وہ ان غیر مسلم قوموں کے محکوم ہیں جو سائنس اور ٹیکنالوجی میں ان سے بڑھی ہوئی ہیں۔ ان کی سیاسی آزادی ان کو آج کی دنیا میں برتری کا مقام نہ دے سکی۔ کیوں کہ وقت بتانے والی گھڑی سے لے کر جنگ لڑنے والے سامان تک ہر چیز کے لیے وہ انھیں قوموں کے محتاج ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں ہر چیز کا تعلق سائنس اور ٹیکنالوجی سے ہوگیا ہے۔ اس لیے جو قوم ان چیزوں میں پیچھے ہو وہ مقابلہ کی اس دنیا میں آگے کی صف میں جگہ نہیں پا سکتی۔