چند سوالات

 اگر یہ مان لیا جائے کہ الٰہی قانون ہی اصول قانون کی تلاش کا جواب ہے جب بھی چند سوالات باقی رہتے ہیں:

1۔مختلف مذاہب’’الٰہی قانون‘‘ کا حامل ہونے کے دعوے دار ہیں اور ان میں کافی اختلافات بھی ہیں۔ پھر وہ کون سا معیار ہوگا جس کی بنیاد پر کسی ایک مذہب کے قانون کو الٰہی قانون قرار دیا جائے گا۔

2۔کسی ایک مذہب کو معیار ماننے کے بعد یہ سوال سامنے آتا ہے کہ ان کے اندرونی اختلافات کو طے کرنے کی صورت کیا ہوگی۔

3۔یہ الٰہی قانون ہزار برس سے بھی زیادہ قدیم زمانہ میں آیا۔ اس دوران انسانی سماج میں  بےشمار تبدیلیاں واقع ہوئیں، پھر اس کو نئے حالات کے مطابق کس طرح بنایا جائے گا۔

یہ تین بڑے سوالات ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کےبارے میں مختصراً عرض کروں گا:

مذاہب کی کثرت سے یہ بات یقیناً ثابت ہوتی ہے کہ ہر زمانہ میں اور ہر قوم میں خدا کی طرف سے اس کا قانون بھیجا گیا۔ مگر ان کا باہمی اختلاف یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ ان میں سے کوئی ایک ہی ہوگا جس کو الٰہی قانون کا صحیح نمائندہ قرار دیا جا سکے۔ تعدد(pluralism) عقلی طور پر ناقابل فہم عقیدہ ہے۔ اب سوال ہے کہ ان میں سے کسی ایک کو مستند نمائندہ کی حیثیت سے منتخب کرنے کی صورت کیا ہو۔ اس کا بالکل سیدھا سادا علمی طریقہ یہ ہے کہ ان کو تاریخ کے معیار پر جانچا جائے اور جس مذہب کا تاریخی طور پر محفوظ اور معلوم ہونا ثابت ہو جائے اس کو لے لیا جائے۔

اگر میں یہ کہوں تو یقیناً میں کسی صاحب علم کی معلومات میں اضافہ نہیں کروں گا کہ تاریخی جانچ کی کسوٹی پر صرف ایک ہی مذہب پورا اترتا ہے اور وہ اسلام ہے۔ آپ کوئی بیاگریفیکل ڈکشنری کھولیں تو تمام پیغمبروں میں محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) اکیلے ہوں گے جن کے نام کے آگے عام قاعدہ کے مطابق قوسین میں(570-632ء) لکھا ہوا ہوگا جس طرح دوسری تاریخی شخصیتوں کے نام کے آگے ہوتا ہے۔ حضرت محمد واحد پیغمبر ہیں جن کی زندگی تاریخ کے تحریری ریکارڈ میں شامل ہے۔ آپ کے متعلق ہر بات معلوم ہے اور آپ کے تبرکات اور مکتوبات تک اصلی حالت میں موجود ہیں۔ حتیٰ کہ معاصر مورخین کے یہاں بھی آپ کا نام ثبت ہوگیا ہے۔ مثال کے طور پر عین آپ کے زمانۂ حیات میں ساتویں صدی عیسوی میں آرمینی زبان میں ایک کتاب(Chronicle of Sebeos) لکھی گئی۔ اس کتاب کا آرمینی متن پٹروگریڈ سے 1879ء میں 118 صفحات پر شائع ہوا اور اس کے بعد روسی اور دوسری زبانوں میں اس کے ترجمے ہوئے۔ انسائیکلوپیڈیا آف ریلجن اینڈ ایتھکس کے مقالہ نگار پروفیسر مارگولیتھ(D. S. Margoliouth, 1858-1940)  نے حضرت محمد کے بارے میں اس کے اندراجات کا خلاصہ حسب ذیل الفاظ میں نقل کیا ہے:

He was an Ishmaelite who taught his countrymen to return to the religion of Abraham and claim the promises made to the descendent of Ismael.

(وہ ایک اسماعیلی تھے جنھوں نے اپنے اہل ملک کو یہ تعلیم دی کہ وہ ابراہیم کے مذہب کو اپنائیں اور یہ دعویٰ کیا کہ خدا ان وعدوں کو ان پر پورا کرے گا جو اس نے اسماعیل کی اولاد کے ساتھ کیے ہیں)۔ یہ صرف حضرت محمد کی خصوصیت ہے کہ جب کوئی محقق آپ پر قلم اٹھاتا ہے تو وہ لکھنے پر مجبور ہوتا ہے کہ وہ تاریخ کی کامل روشنی میں پیدا ہوئے:

....born within the full light of history.

اسی طرح وہ قرآن جس کو حضرت محمد نے یہ کہہ کر پیش کیا کہ یہ میرے پاس خدا کی طرف سے آیا ہے، وہ مکمل طور پرمحفوظ ہے، تمام محققین نے اس کو بطور واقعہ تسلیم کیا ہے۔ یہ صرف قرآن ہی کی خصوصیت ہے کہ اس کے بارے میں جب آپ کسی محقق کو پڑھتے ہیں تو اس کے یہاں لکھا ہوا ملتا ہے:

The Quran appears to be the most part authentic. The very words that he uttered as a revelation and that were collected in his lifetime.

یعنی قرآن بالکل مستند شکل میں محفوظ ہے۔ حضرت محمد نے جو الفاظ بطور الہام اپنی زبان سے نکالے تھے، قرآن عین انھیں الفاظ پر مشتمل ہے جو آپ کی زندگی ہی میں مرتب کر لیا گیا تھا۔ مقدس کتابوں کی تاریخ میں یہ بات انتہائی عجیب ہے کہ ہرن کی کھال پر لکھا ہوا وہ قرآن آج بھی تاشقند کی لائبریری میں محفوظ ہے جو پیغمبر اسلام کے داماد اور خلیفہ ثالث عثمان غنی (624-656ء) کے زیرِمطالعہ رہتا تھا۔ قرآن کے ابتدائی نسخہ اور موجودہ متداول نسخوں میں ایک لفظ کا بھی فرق نہیں۔

سرولیم میور(1819-1905ء) نے لکھا ہے:

’’یہی ایک نکتہ کہ مسلمانوں کے فرقے ہر زمانہ میں قرآن کے ایک ہی نسخے کے پیرو رہے ہیں، قطعی طور پر ثابت کر دیتا ہے کہ جو قرآن آج ہمارے ہاتھوں میں ہے، وہی قرآن ہے جسے عثمان کے حکم سے جمع کیا گیا۔ میرا گمان ہے کہ قرآن کے سوا تمام دنیا میں کوئی کتاب نہیں جس کا متن بارہ صدیوں تک اتنا محفوظ اور آلائش سے پاک رہا ہو۔‘‘

Except the Qur`an there is no other book under the sun, which for the last twelve centuries has remained with so pure a text.

Life of Mohammed, Introduction by Sir W, Muir, London.1858.

میں شاید کہنے میں حق بجانب ہوں کہ الٰہی قانون کی بنیادی صداقت کو تسلیم کرنے کے بعد ان میں سے کسی کو اختیار کرنے کا سب سے زیادہ غیر مشتبہ علمی معیار تاریخ ہی ہو سکتا ہے اور وہ بلاشبہ قرآن کے حق میں فراہم ہوگیا ہے۔

اب یہ سوال ہے کہ خود اسلام کے اندرونی اختلافات کو کس طرح طے کیا جائے۔

یہ مسئلہ جوبظاہر بھیانک معلوم ہوتا ہے اس وقت بالکل معمولی نظر آنے لگا ہے جب ہم اس حقیقت کو سامنے رکھیں کہ انسانی طبائع میں اختلاف کی وجہ سے تعبیرات و تشریحات میں اختلاف ناگزیر ہے۔ یہ زندگی کی ایک حقیقت ہے نہ کہ زندگی کا ایک مسئلہ۔ اس کا نہایت سادہ حل قرآن نے یہ تجویز کیا ہے کہ جب کوئی اختلافی سوال کھڑا ہو تو ہر شخص اس پر طبع آزمائی نہ کرے بلکہ اس کو ان لوگوں کے پاس لے جایا جائے جو علم اور تحقیق کے مالک ہیں:

وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ(4:83)۔یعنی، اور جب ان کے پاس کوئی خبر پہنچتی ہے، امن کی یا خوف کی تو اس کو پھیلا دیتے ہیں۔ اگر یہ اس کو رسول تک اور اپنے اصحاب امر تک پہنچاتے تو اس کو وہ لوگ جان لیتے جو تحقیق کرنے والے ہیں۔

یہ اختلاف پیدا ہونے کی شکل میں پہلا قدم ہے ۔ لیکن اگر اصحاب علم کی مجلس بھی کسی ایک رائے پر نہ پہنچ سکے تو آخری تدبیر یہ بتائی گئی کہ رائے شماری کے ذریعہ کسی ایک فیصلہ پر پہنچ کر اس کے مطابق عمل کرو:وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ (42:38)۔یعنی،اور ان کا کام باہم مشورہ سے ہوتا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ الٰہی قانون کا اندرونی اختلاف صرف ایک علمی مسئلہ ہے، وہ کوئی عملی مسئلہ نہیں۔ الٰہی قانون میں چونکہ بنیادی اصول طے شدہ ہیں، اس لیے علمی بحثیں اسی کے دائرہ میں ہوں گی۔ ان بحثوں سے نہ صرف یہ کہ کوئی حقیقی خرابی نہیں پیدا ہوتی بلکہ وہ کئی پہلوئوں سے فکری ارتقاء میں مدد گار ہیں۔ جہاں تک عملی ضرورت کے لیے کسی ایک تعبیر کے تعین کا سوال ہے، وہ اجتماعی ادارہ یا پارلیمنٹ کے ذریعہ پوری ہو جاتی ہے۔

نئے پیدا شدہ حالات کے سلسلے میں الٰہی قانون کی رہنمائی کس طرح حاصل ہوگی، اس کا جواب اجتہاد ہے۔ اجتہاد کا مطلب سادہ طور پر یہ ہے کہ خدا نے جو بنیادی قانون (قرآن کی صورت میں) دیا ہے اور خدا کے رسول نے اس کی جو لسانی یا علمی تشریح کی ہے، اس کا گہرا علم حاصل کرنا اور اس کو سامنے رکھ کر پیش آمدہ مسائل میں الٰہی قانون کا انطباق تلاش کرنا۔ اس انطباق کا مطلب صرف یہی نہیں ہے کہ قرآن و حدیث سے قانونی دفعات اخذ کرکے اس کو ہر زمانہ میں نافذ کیا جاتا رہے۔ بلکہ اس میں خود خارجی دنیا کے غیر متصادم قوانین کو الٰہی قانون کے ڈھانچہ میں قبول کرنا بھی شامل ہے۔ مثال کے طور پر خلیفہ ثانی عمر فاروق کے زمانہ میں عراق، مصر اور شام فتح ہوئے تو آپ نے ان ملکوں میں سابقہ رومی، یونانی اور ایرانی قانون مال گزاری کو باقی رکھا۔ البتہ جو چیزیں ظلم نظر آئیں، ان میں اصلاح و ترمیم کر دی۔ اسی طرح درآمد و برآمد اور کسٹم کے لیے یہ قانون مقرر کیا کہ بیرونی ممالک میں مسلمان تاجروں کے ساتھ جو معاملہ کیا جاتا ہے وہی معاملہ وہاں کے تاجروں کے ساتھ اسلامی سلطنت میں کیا جائے۔

اجتہاد کا عمل اسلام کی ہزار سالہ تاریخ میں مسلسل جاری رہا ہے۔ مدینہ کی ابتدائی ریاست (622-632ء) ایک سادہ عرب ریاست تھی جس میں پیغمبر اسلام نے الٰہی قانون کو نافذ کیا۔ اس کے بعد خلافت راشدہ کے زمانہ میں جب اطراف کے متمدن ممالک اسلامی ریاست میں شامل ہوئے تو بہت سے نئے نئے مسائل پیدا ہوگئے۔ اس وقت عمر فاروق(636-644ء) نے اجتہاد سے کام لے کر نئے حالات کے مطابق الٰہی نظام کو قائم کیا جس کی تفصیل مولانا شبلی نعمانی (1857-1914ء) کی کتاب الفاروق میں دیکھی جا سکتی ہے۔ پھر خلافت عباسیہ کے زمانے میں جب اسلامی سلطنت کو مزید وسعت ملی اور نظام زیادہ وسیع اور پیچیدہ ہوگیا تو امام ابو یوسف (782-798ء) سامنے آئے جو نہ صرف وقت کی سب سے بڑی سلطنت کے قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) تھے بلکہ موجودہ زمانہ کی اصطلاح میں وزارت قانون کا عہدہ بھی انھیں حاصل تھا۔ انھوں نے الٰہی قانون کو نئے وسیع تر حالات سے ہم آہنگ کر دیا جس کا ریکارڈ خود ان کی لکھی ہوئی ’’کتاب الخراج‘‘ میں موجود ہے۔ اس کے بعد انیسویں صدی میں جب دنیا کے حالات میں دوبارہ انقلابی تبدیلیاں ہوئیں تو ترکی سلطان عبدالعزیز عثمانی (1860-1876ء) کے حکم سے ماہرین قانون، فقہاء اور عدلیہ کے اعلیٰ عہدہ داروں پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی جس نے وہ مجموعۂ قانون مرتب کیا جو مجلۃ الاحکام الشرعیہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس مجلہ میں فقہ اسلامی کے اس حصہ کو، جس کو سول لاء یا دیوانی قانون کہا جاتا ہے، دفعہ وار قوانین کی شکل میں مرتب کیا گیا ہے۔ یہ قانون1918ء تک خلافت عثمانیہ میں رائج رہا اور مصر، سوڈان، شام، حجاز، عراق اور شرق اردن کی عدالتیں اسی کے مطابق فیصلے کرتی رہیں۔ آج بھی اردن اور سعودی عرب میں یہی قانون کسی قدر ترمیم کے ساتھ رائج ہے۔ مجلۃ الاحکام الشرعیہ ابتداً عربی اور ترکی زبانوں میں تیار کیا گیا تھا۔ اس کے بعد اس کے ترجمے انگریزی اور دوسری زبانوں میں ہو چکے ہیں۔

اجتہاد کا یہی طریقہ اختیار کرکے آج بھی الٰہی قانون کو وقت کی ضرورتوں کے مطابق بنایا جا سکتا ہے اور آئندہ بھی بنایا جاتا رہے گا۔

نوٹ: یہ مقالہ مذہب۔ اخلاق۔ قانون پر ہونے والے بین الاقوامی سیمینارInternational Seminar on Religion-Morality-Law.  (نئی دہلی،11-16 دسمبر 1973ء) کے موقع پر پڑھا گیا۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom