سائنس کی مسلم دنیا سے علیحدگی
علم کے مختلف میدانوں میں یہ ترقیاں جاری تھیں کہ باہمی اختلافات کے نتیجہ میں عرب خلافت کا نظام ٹوٹ گیا۔ اور اسلام کا جھنڈا عثمانی ترکوں(1517-1922ء) نے سنبھالا۔ اس طرح سولھویں صدی عیسوی میں اسلام کی سیاسی نمائندگی کا مرکز عرب سے نکل کر ترکی کی طرف منتقل ہوگیا۔ یہاں سے تاریخ میں ایک نیا انقلاب آیا جس نے واقعات کے رخ کو بالکل دوسری طرف موڑ دیا۔
تاریخ کا یہ عجیب المیہ ہے کہ ایک شخص جو کسی پہلو سے مفید خدمت انجام دیتا ہے، وہی کسی دوسرے پہلو سے بڑی مصیبت کا سبب بن جاتا ہے۔ اس کی ایک واضح مثال اموی خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کی ہے۔ اس کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس نے خلفاء راشدین کی فہرست میں پانچویں خلیفہ راشد(عمر بن عبدالعزیز) کا اضافہ کیا۔ مگر مورخ اسی خلیفہ کے تذکرہ میں اس ہیبت ناک غلطی کو بھی لکھتا ہے کہ اس نے اپنے زمانہ کے انتہائی اہم فوجی سرداروں کو ختم کرا دیا۔ جس کا نقصان یہ ہوا کہ ایشیا اور افریقہ میں اسلام کی بڑھتی ہوئی پیش قدمی اچانک ٹھپ ہو کر رہ گئی۔
یہی صورت عثمانی ترکوں کے ساتھ پیش آئی۔ ترکوں نے عین اس وقت اسلام کا جھنڈا سنبھال لیا جب کہ کمزور ہاتھوں میں پہنچ کر اس کے گرنے کا اندیشہ پیدا ہوگیا تھا۔ وہ کئی سو سال تک یورپ کی مسیحی طاقتوں کے مقابلہ میں اسلام کی دیوار بنے رہے۔ اس اعتبار سے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ مگر اسی کے ساتھ یہی ترک ہیں جو اس حادثہ کا باعث بنے کہ مسلم دنیا میں ہونے والی سائنسی تحقیقات رک جائیں اور ان کا مرکز یورپ کی طرف چلا جائے۔
ترک انتہائی بہادر اور حوصلہ مند تھے۔ مگر ان کی کمزوری یہ تھی کہ وہ جاہل تھے۔ علمی تحقیق کے کام کی اہمیت نہ صرف یہ کہ وہ سمجھ نہیں سکتے تھے بلکہ وہ اس کو اپنے لیے ایک سیاسی خطرہ خیال کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ علم کے بڑھنے سے رعایا میں ان کے حق میں وفاداری کم ہو جائے گی اور ان کو قابو میں رکھنا نسبتاً زیادہ مشکل ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے علمی کام کے ساتھ سخت غیر رواداری کا ثبوت دیا۔ جب مسلم سیاست کا مرکز بدلا تو وہ لوگ جو بغداد اور دوسرے مراکز میں سائنس کی تحقیق کا کام کر رہے تھے، وہ منتقل ہو کر ترک دارالسلطنت آستانہ میں جمع ہوگئے۔ عباسی خلفاء ان لوگوں کے بے حد قدردانی کرتے تھے۔ انھوں نے ان کے اوپر درہم و دینار کی بارش کر رکھی تھی۔ مگر ترک ان کو اپنے لیے خطرہ سمجھ کر ان سے نفرت کرنے لگے۔ انھوں نے ان کی اس قدر حوصلہ شکنی کی کہ ترک حکومت میں ان کو اپنا مستقبل تاریک نظر آنے لگا۔ چنانچہ یہ لوگ ترک چھوڑ کر اٹلی اور فرانس جانا شروع ہوگئے۔ سائنسی تحقیقی کا کام مسلم دنیا سے نکل کر مغربی دنیا میں منتقل ہوگیا۔ ترکوں نے علم اور اہل علم کی جس طرح حوصلہ شکنی کی اس کی دردناک تفصیل محمد کرد علی شامی کی کتاب الحضارۃ العربیہ میں دیکھی جا سکتی ہے۔
مغربی دنیا(western world)میںان سائنسدانوںکی خوب پذیرائی ہوئی۔ صلیبی جنگوں (1095-1271ء) میں مسلمانوں کے مقابلہ میں یورپی قوموں کو شکست اس لیے ہوئی تھی کہ مسلمان علم و فن میں ان سے بڑھے ہوئے تھے۔ ان جنگوں میں ابتداء میں رومی فوجوں نے یونانی آگ(Greek Fire) استعمال کی جس سے مسلمانوں کو نقصان اٹھانا پڑا۔’’یونانی آگ‘‘ ایک قسم کی پچکاری تھی جس میں آتش گیر کمیائی مرکب بھر کر دشمن کی طرف پھینکا جاتا تھا۔ مسلم سائنس دانوں نے اس کے مقابلہ میں ایک اور چیز ایجاد کی۔ اس میں روغن نفط(معدنی تیل) استعمال ہوتا تھا۔ اس کی مار زیادہ دور تک تھی اور اس کا نقصان بھی یونانی آگ سے بہت بڑھا ہوا تھا۔
یورپ کے مسیحی قدرتی طور پر مسلمانوں کے مقابلہ میں اپنی علمی پسماندگی کو دور کرنے کے لیے بیتاب تھے۔ اب جو مسلم دنیا کے اہل علم ان کے یہاں پہنچے تو انھوں نے ان کے ساتھ زبردست تعاون کیا۔ یورپ میں علمی تحقیق کا وہ کام دگنی شدت کے ساتھ ہونے لگا جو اس سے پہلے مسلم دنیا میں ہو رہا تھا۔ سولھویں صدی عیسوی سے لے کر انیسویں صدی تک، تقریباً تین سو سالہ عمل کے نتیجہ میں یورپ میں وہ انقلاب آیا جس کو سائنسی اور صنعتی انقلاب کہا جاتا ہے۔ مغرب کی سائنسی ترقی میں مسلمانوں کے حصہ کے بارے میں مزید تفصیل بریفالٹ کی کتاب تعمیر انسانیت (Making of Humanity) میں دیکھی جا سکتی ہے۔
سولھویں صدی تک مسلمان علم کے میدان میں استادی کے مقام پر تھے۔ مگر اس کے بعد کی صدیوں میں یورپ نے جو ترقیاں کیں اس نے مسلمانوں کو شاگردی کے مقام پر پہنچا دیا۔ مسلمان خود اپنی لائی ہوئی انقلابی دنیا میں دوسری قوموں سے پیچھے ہوگئے۔ تاہم اب بھی یہ موقع تھا کہ وہ یورپ کی تحقیقات سے فائدہ اٹھا کر آگے بڑھیں اور وہ واقعہ دوبارہ نئی شکل میں ظہور میں آئے جو مسلمانوں کے مقابلہ میں یورپ کے ساتھ پیش آیا تھا۔ مسلمانوں کے علوم کو بنیاد بنا کر یورپ ان سے آگے بڑھ گیا تھا۔ اب مسلمان یورپ کے علوم کو لے کر مزید آگے کی ترقیاں حاصل کر سکتے تھے۔ مگر یہاں دو خاص وجہیں راستہ میں حائل ہوگئیں۔ ایک تاریخی امکان واقعہ بننے سے رہ گیا۔