فطرتِ انسانی
یہاں ہم دو تصویریں نقل کر رہے ہیں۔ دونوں بظاہر سجدہ کی تصویریں ہیں۔ مگر یہ ’’فطرت‘‘ کا سجدہ ہے، نہ کہ ’’شریعت‘‘ کا سجدہ۔ یہ دونوں امریکا کے دو کھلاڑیوں کی تصویریں ہیں۔ ان کی زندگی میں وہ نازک موقع آیا جب کہ انھوں نے فطرت کی سطح پر اس گہرے احساس کا تجربہ کیا جس کو مذہب کی اصطلاح میں ’’عبودیت‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس احساس سے مغلوب ہو کر وہ زمین پر گر پڑے اور سجدہ کی حالت میں جا کر اپنے اندرونی جذبہ کی تسکین حاصل کی۔
سجدہ فطرتِ انسانی کی طلب ہے۔ اس طلب کا حقیقی جواب یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو اپنے خالق و مالک کے آگے جھکا دے۔ مگر انسان اپنی بے خبری کی وجہ سے اپنے آپ کو دوسری دوسری چیزوں کے آگے جھکاتا ہے ، جو چیز صرف ایک خدا کا حق ہے اس کو وہ غیر خدا کو دے دیتا ہے۔
پہلی تصویر امریکی کھلاڑی کارل لیویس کی ہے۔ لاس اینجلس میں دوڑ کا عالمی مقابلہ ہوا۔ اس میں 22 جون 1982ء کو کارل لیویس نے اعلیٰ کامیابی حاصل کی۔ اس کامیابی کے بعد کارل لیویس کی ایک تصویر اخبارات میں شائع ہوئی ہے۔ اس تصویر کا عکس ہم مقابل کے صفحہ پر نقل کر رہے ہیں۔
اس تصویر میں کارل لیویس بالکل سجدہ کی حالت میں دکھائی دے رہا ہے۔ جس پٹری پر دوڑ کر اس نے یہ مقابلہ جیتا تھا، اس پٹری کے لیے اس کے دل میں عقیدت اور احسان مندی کا اتنا شدید جذبہ پیدا ہوا کہ پٹری پر اپنی پیشانی رکھ کر وہ سجدہ میں گر پڑا۔
یہ ایک تازہ مثال ہے جو بتاتی ہے کہ انسانی فطرت میں کس طرح یہ جذبہ چھپا ہوا ہے کہ وہ کسی کو اپنا محسن سمجھے اور اس کے آگے اپنے بڑے ہوئے جذباتِ عقیدت کو پیش کر سکے۔
یہ مثال وہ تھی جب کہ احساس شکرکے تحت آدمی زمین پر گر پڑتا ہے۔ اب دوسری مثال لیجیے جس میں احساس عجز نے انسان کو مجبور کیا کہ وہ زمین پر اپنا سر رکھ دے۔ یہ مثال 29 سالہ جان میک انرو کی ہے،وہ امریکا کے رہنے والے ہیں۔ وہ 1981 سے بیڈمنٹن کے عالمی چیمپئن تھے۔ 24 جون 1988ءکو ان کامقابلہ آسٹریلیا کے 25 سالہ والی ماسور سے لندن میں ہوا۔ اس مقابلہ میں جان میک انرو کو شکست ہوئی۔ ان کی عالمی چیمپئن کی حیثیت ختم ہو گئی (ہندستان ٹائمس ، 25 جون 1988ء) ۔
جان میک انرو پراس واقعہ کا زبردست اثر پڑا۔ تاہم انھوں نے اپنی شکست کی ساری ذمہ داری خود قبول کی۔ انھوں نے کہاکہ میں بالکل بنیادی تقاضے بھی پورے نہ کر سکا۔ اس نے مجھے تقریباً بیمار بنا دیا:
I couldn't even do the basics. It almost made me sick.
اس سلسلہ میں اخبارات میں جو رپورٹ شائع ہوئی ہے ، اس میں جان میک انرو کی ایک تصویر بھی شامل ہے۔ اس تصویر میں سابق چیمپئن بالکل سجدہ کی حالت میں زمین پر گرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ دراصل انسانی عجز کا اعتراف ہے۔
یہ دونوں جذبات (احساسِ شکر اور احساسِ عجز) انسانی فطرت کے نہایت گہرے جذبات ہیں۔ اس دنیا میں انسان کبھی پاتا ہے اور کبھی کھوتا ہے۔ کبھی کامیاب ہوتا ہے اور کبھی ناکام۔ انسان جب کامیاب ہوتا ہے تو وہ چاہتا ہے کہ اس کامیابی کو کسی کا عطیہ قرار دے کر اس کا شکر ادا کرے۔ اسی طرح جب وہ ناکام ہوتا ہے تو وہ محسوس کرتا ہے کہ یہاں کوئی اور طاقت ہے جو سب کے اوپر ہے۔ یہ جذبہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ اس قادر مطلق کے آگے جھک جائے۔
یہ جذبات انسانی فطرت کے نہایت گہرے جذبات ہیں۔ کوئی بھی انسان ان سے خالی نہیں۔ خواہ وہ بڑا ہو یا جھوٹا ، امیر ہو یا غریب۔ انسانی فطرت کا علمی مطالعہ کرنے والے ماہرین نے اعتراف کیا ہے کہ یہ جذبات انسانی فطرت میں اس طرح پیوست (interwoven) ہیں کہ ان کو کسی بھی طرح انسان سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔
یہ جذبہ دراصل خدا کی پرستش کا جذبہ ہے۔ اس جذبہ کا مرجع حقیقتاً وہ ہستی ہے جو انسان کی خالق ہے۔ یہ جذبہ اس لیے ہے کہ انسان اپنے خالق و مالک کو پہچانے ۔ وہ اس کی عظمت کا اعتراف کرے، وہ اس کے آگے اپنے آ پ کو ڈال دے۔
مگر انسان فطرت کے راستہ سے انحراف کرتا ہے۔ جو چیز خدا کو دینا چاہیے وہ اسے دوسروں کو دیتا ہے۔ اسی کا دوسرا نام شرک ہے۔ آدمی اگر اپنے فطری جذبات کا مرجع ایک خدا کو بنائے تو یہ توحید ہے اور اگر وہ ان کا مرجع کسی دوسری زندہ یا مردہ چیز کو بنائے تو یہ شرک ہے۔ توحید انسانی فطرت کا صحیح استعمال ہے اور شرک انسانی فطرت کا غلط استعمال۔
انسان عین اپنی فطرت کے زور پر مجبور ہے کہ وہ کسی کو اپنا ’’خدا‘‘ بنائے۔ حقیقی خدا چوں کہ ظاہری آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتا اس لیے وہ دکھائی دینے والی چیزوں کو خدا سمجھ لیتا ہے۔ جو کچھ خدا کو دینا چاہیے وہ اسے غیر خدا کو دے دیتا ہے۔
انیسویں صدی کے نصف آخر اور بیسویں صدی کے نصف اول میں یہ سمجھ لیا گیا تھاکہ انسانی فطرت کوئی چیز نہیں۔ یہ صرف خارجی حالات ہیں جو انسان کی صورت گری کرتے ہیں۔ مگر جدید تحقیقات اس نظریہ کو غلط ثابت کر رہی ہیں۔ اس سلسلہ میں ہم ایک امریکی تحقیق کا حوالہ دیتے ہیں جس کا خلاصہ حسب ذیل الفاظ میں شائع ہوا ہے:
Nature Beats Nurture
Karl Marx and Sigmund Freud were wrong about human nature. Contrary to their view, inherited qualities are far more important than upbringing in determining personality, a team of psychologists has concluded. In an eight-year study at the University of Minnesota involving 350 pairs of twins, 44 of them identical, the scientists found that the influence of genes was clearly victorious in the 'nature versus nature' dispute. The results of their research will be seen as refuting Marxist dogma that insists that man can be 'remade.' 'In particular, we found that the tendency to believe in traditional values and the strict enforcement of rules in more an inherited trait,' said one of the researchers, Dr David Lykken.
The Hindustan Times, Sunday Magazine, January 4, 1987.
کارل مارکس اور سگمنڈ فرائڈ انسانی فطرت کے بارے میں غلطی پر تھے۔ ان کے نقطۂ نظر کے برعکس، انسانی شخصیت کی تشکیل میں تربیت کے مقابلہ میں اندرونی پیدائشی صفات کہیں زیادہ اہم ہیں۔ نفسیاتی ماہرین کی ایک ٹیم نے اس نتیجہ کا اعلان کیا ہے۔ منی سوٹا یونیورسٹی کے تحت کیے جانے والے 8 سالہ مطالعہ میں ، جس میں 350 توأم جوڑے شامل تھے ، اس میں 44 بالکل یکساں قسم کے تھے ۔ سائنس دانوں نے پایا ہے کہ جینز کا اثر فطرت بمقابلہ تربیت کی بحث میں واضح طور پر غالب رہا۔ ان کی تحقیق کے نتائج مارکس کے اس مفروضہ کی تردید ہیں جس کا شدت سے یہ دعویٰ ہے کہ انسان کو دوبارہ بنایا جا سکتاہے۔ ریسرچ ٹیم کے ایک شخص ڈاکٹر ڈیوڈ لکن نے کہاکہ ہم نے یہ پایا ہے کہ روایتی قدروں میں عقیدہ اور قانون کے سختی سے نفاذ کارحجان زیادہ تر پیدائشی صفات کا نتیجہ ہے۔
مذکورہ واقعہ، اور اس طرح کے دوسرے واقعات سے ، یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایک برتر ہستی (خالق) کے آگے سپردگی کا جذبہ ایک فطری اور حقیقی جذبہ ہے۔ اگر وہ غیر فطری اورغیر حقیقی ہوتا تو اس کو اب تک ختم ہو جانا چاہیے تھا۔ جدید نسل ایسے حالات میں پرورش پا کر نکلی ہے جب کہ اس کے ہر طرف لامذہبیت اور بے خدا تہذیب کا چرچا تھا۔ اس کے باوجود نئی نسل میں یہ مذہبی نفسیات مسلسل طور پر باقی رہی ، وہ کسی طرح ختم نہ کی جا سکی۔
سیول (کوریا) میں ستمبر 1988ء میں کھیلوں کے اولمپک مقابلے ہوئے۔ اس سلسلہ میں اخبارات میں روزانہ با تصویر رپورٹیں آ رہی تھیں۔ انھیں میں سے ایک تصویر وہ تھی جو 30 ستمبر کے اخبارات میں شائع ہوئی۔مثلاً ٹائمس آف انڈیا،30 ستمبر 1988ء صفحہ 10 ۔ تصویر کے مطابق، ایک عورت عین نماز کی حالت میں بیٹھی ہوئی تھی۔ یعنی وہ حالت جو نماز کے خاتمہ پر تشہد کی حالت میں کسی نمازی کی ہوتی ہے۔ اس تصویرمیں مذکورہ عورت بالکل نماز کی ہیئت میں دونوں پائوں توڑ کر بیٹھی ہوئی ہے۔ اور اپنے ہاتھوں کو اٹھاکر منھ کے پاس اس طرح کیے ہوئے ہے جیسے وہ نماز سے فارغ ہو کر دعامیں مشغول ہو۔
یہ کوئی نمازی عورت نہیں ہے۔ یہ کیلی فورنیا کی ایک27 سالہ کھلاڑی خاتون ہے جس کا نام فلارنس گریفتھ جائنر (Florence Griffith-Joyner) ہے۔ 29 ستمبر کو 200 میٹرکی دوڑ میں اس نے گولڈ میڈل حاصل کیا۔ اور دنیا کی تیز ترین عورت (fastest woman) قرار دی گئی۔ اس کامیابی کی خبر نے اس کی اندرونی ہستی کو بے قرار کر دیا۔ وہ ابھی اپنے کھیل کے لباس ہی میں تھی کہ وہ زمین پر گر پڑی۔ وہ بے اختیارانہ طور پر نمازی کی ہیئت میں بیٹھ گئی اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر خدا سے دعا کرنے لگی اور اس کے سامنے اظہار جذبات میں مشغول ہو گئی۔
یہ واقعہ اس بات کا ایک اظہار ہے کہ انسان کی فطرت میں ایک محسن اور منعم کا تصور نہایت گہرائی کے ساتھ چھپا ہوا ہے۔ آدمی کو جب کوئی غیر معمولی کامیابی حاصل ہوتی ہے تو اس کا اندرونی جذبہ بے اختیارانہ طور پر چاہنے لگتا ہے کہ وہ اس کے آگے جھک جائے ، وہ اس احسان کو حقیقی محسن کے خانہ میں ڈال دے۔