میکے کے تصورمیں جینا
مشرقی خواتین میں ایک مزاج بہت عام ہے۔ نکاح کے بعد وہ اپنے سسرال آ جاتی ہیں۔ لیکن نفسیاتی اعتبار سے بدستور وہ اپنے میکے میں جیتی رہتی ہیں۔ جسمانی اعتبار سے وہ سسرال میں ہوتی ہیں، لیکن ذہنی اعتبار سے وہ بدستور اپنے میکے کی یادوں میں گم رہتی ہیں۔ خواتین کا یہ مزاج ایک غیر حقیقی مزاج ہے۔ اس غیر حقیقی مزاج کی بھاری قیمت ان کو یہ دینی پڑتی ہے کہ وہ اپنی سسرال میں غیر ضروری طورپر پریشان رہیں، ان کو کبھی سکون کی زندگی حاصل نہ ہو۔
خواتین کے اندراس غیر حقیقی مزاج کی اصل ذمہ داری ان کے والدین پر ہے۔ والدین اپنی نام نہاد محبت کی بنا پر ایسی باتیں کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی بیٹی کو نئی زندگی کا شعور حاصل نہیں ہوتا۔ والدین اپنی بیٹی کے ساتھ یہ معاملہ محبت کے نام پر کرتے ہیں، لیکن انجام کے اعتبار سے وہ دشمنی ہوتا ہے۔ والدین تو کچھ دنوں کے بعد اس دنیا سے چلے جاتے ہیں، لیکن اپنی بیٹی کو وہ ہمیشہ کے لیے ایک غیر حقیقی مسئلے میں مبتلا کرکے چھوڑ جاتے ہیں۔
مجھے ایک باپ کا حال معلوم ہے۔ نکاح کے بعد جب انہوں نے اپنی بیٹی کو رخصت کیا تو انہوں نے اپنی بیٹی سے کہہ دیا کہ ------ جہاں تم جا رہی ہو، وہی اب تمہارا گھر ہے۔ وہیں کے ماں باپ، تمہارے ماں باپ ہیں۔ ہم تمہارے لیے دعا کرتے رہیں گے، لیکن اس حقیقت کو سمجھ لو کہ اب تمہارا گھر بھی بدل چکا ہے اور تمہارے ماں باپ بھی۔ بیٹی کے لیے اپنے والد کی یہ نصیحت بہت مفید ثابت ہوئی۔ سسرال پہنچتے ہی انہوں نے سسرال کو اپنا گھر بنا لیا۔ اس کے بعد ان کو زندگی کی وہ تمام خوشیاں اپنی سسرال میں مل گئیں جو انہیں اس سے پہلے اپنے میکے میں حاصل تھیں۔
زندگی میں کامیابی کا راز حقیقت پسندی ہے۔ اسی طرح زندگی کے تمام مسائل کا سبب غیر حقیقت پسندانہ مزاج ہے۔ جو عورت یا مرد اس راز کو سمجھ لیں، وہ یقینی طور پر اپنی زندگی کو خوشگوار بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔