فطرت سے تعاون
ایک صاحب نے کہا کہ جب میں اپنے گھر جاتا ہوں، تو میری بیوی میرے خلاف کوئی نہ کوئی سخت لفظ بول دیتی ہیں۔ اِس پر مجھے غصہ آجاتا ہے اور میں بھی کچھ بول دیتاہوں، اور پھر دونوں کے درمیان جھگڑا ہوجاتا ہے۔ اِس طرح کے جھگڑے میرے گھر میں اکثر ہوتے رہتے ہیں۔ اِس مسئلے کا حل کیا ہے۔
میں نے کہا کہ اِس مسئلے کا حل صرف ایک ہے اور وہ یک طرفہ صبر ہے، یعنی آپ کی بیوی آپ کے خلاف بولیں، تب بھی آپ اُن کے خلاف نہ بولیں۔ آپ ہر حال میں یک طرفہ خاموشی کا طریقہ اختیار کریں۔ انھوں نے کہا کہ ایسا کیوں۔ آخر میں ہی یک طرفہ طورپر کیوں چپ رہوں، اُنھیں بھی تو چپ رہنا چاہیے۔ یہ تو انصاف کی بات نہیں ہوئی۔
میں نے کہا کہ یہ انصاف کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ یہ عملی حل کا ایک معاملہ ہے۔ عورت پیدائشی طورپر جذباتی (emotional) ہوتی ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وہ کسی بات سے زیادہ اثر لے لیتی ہے۔ اب ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی ہو جس کے اوپر وہ اپنے جذبات کو نکالے۔ یہ عورت کی ایک فطری ضرورت ہے۔ ایسی حالت میں عورت کا شوہر ہی وہ قریبی شخص ہوتا ہے جس کے اوپر وہ اپنے جذبات کو نکالے اور اپنے آپ کو دوبارہ معتدل بنائے۔
ایسے موقع پر مرد کو چاہیے کہ وہ اس کو انا (ego) کا مسئلہ نہ بنائے،بلکہ وہ تعاون (co-operation) کے جذبے سے کام لے۔ ایسی صورتِ حال میں مرد اگر اعراض کا طریقہ اختیار کرے تو گویا کہ اُس نے تعاون کا طریقہ اختیار کیا۔ مزید یہ کہ اس کا یہ تعاون صرف عورت کے ساتھ نہیں ہوتا، بلکہ وہ فطرت کے ساتھ ہوتا ہے۔ قانونِ فطرت کے تحت، عورت مجبور ہے کہ وہ اِس قسم کا جذباتی اظہار کرے۔ اِس لیے مرد جب ایسے موقع پر تعاون کا طریقہ اختیار کرتا ہے تو وہ اس کے لیے عبادت کا ایک معاملہ ہوتا ہے، یعنی اس نے فطرت کے قائم کردہ نظام کو رضا مندی کے ساتھ قبول کیا۔ یہ بلاشبہ ایک ایسا معاملہ ہے جس پر خدا کے یہاںاس کو انعام دیا جائے گا۔