زیادہ مہر نہیں
مہر رقم میں بھی دی جا سکتی ہے اور کسی چیز کی صورت میں بھی۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اس کی مقدار حسب استعداد مقرر کی جائے۔ وہ اتنی ہی ہو کہ آدمی سہولت کے ساتھ اس کو اسی وقت ادا کرسکے۔ مہر کی کم سے کم حد کے بارے میں فقہاء کے مختلف اقوال ہیں۔ تاہم ان کا خلاصہ یہ ہے کہ مہر کی کم سے کم مقدار یہ ہے کہ وہ اتنی ہو کہ اس کے ذریعے سے ضرورت کی کوئی چیز خریدی جا سکے۔ ہر وہ رقم مہر بن سکتی ہے جو کسی چیز کی قیمت ہو(كل ما صَحّ ثمناً صح صداقاً ) الفقہ علی المذاھب الاربعہ، جلد4، صفحہ100۔
احادیث میں کوئی بھی ایسی حدیث نہیں جس میں زیادہ مہر مقرر کرنے کی ہمت افزائی کی گئی ہو۔ اس کے برعکس، بہت سی روایتیں ہیں جن میں کم مہر مقرر کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اس طرح کے معاملات میں اسلام کا طریقہ ہمیشہ تلقین کا ہوتا ہے نہ کہ تحریم کا۔ چنانچہ زیادہ مہر کو اگرچہ بالکل ممنوع قرار نہیں دیا گیا ہے مگر تمام روایتیں اسی کے حق میں ہیں کہ مہر زیادہ نہ باندھی جائے۔ چند روایتیں یہ ہیں:
(1) عَنِ ابْن عَبَّاسٍ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"خَيْرُهُنَّ أَيْسَرُهُنَّ صَدَاقًا"(صحیح ابن حبان، حدیث نمبر 4034) ۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے بہتر عورت وہ ہے جس کا مہر سب سے آسان ہو۔
(2) عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ:قَالَ لي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"مِنْ يُمْنِ الْمَرْأَةِ تَسْهِيلُ أَمْرِهَا، وَقِلَّةُ صَدَاقِهَا"(صحیح ابن حبان، حدیث نمبر 4095)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت کی برکت میں سے یہ ہے کہ اس کا معاملہ آسان ہو اور اس کا مہر کم ہو۔
(3) أَعْظَمُ النِّسَاءِ بَرَكَةً أَيْسَرُهُنَّ صَدَاقًا(مستدرک الحاکم، حدیث نمبر 2732)۔یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے زیادہ برکت والی عورت وہ ہے جس کا مہر سب سے آسان ہو۔
(4) عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ قَالَ:سَأَلْتُ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَمْ كَانَ صَدَاقُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ:’’كَانَ صَدَاقُهُ لِأَزْوَاجِهِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ أُوقِيَّةً وَنَشًّا‘‘، قَالَتْ: ’’أَتَدْرِي مَا النَّشُّ؟ ‘‘ قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَتْ: ’’نِصْفُ أُوقِيَّةٍ، فَتِلْكَ خَمْسُمِائَةِ دِرْهَمٍ، فَهَذَا صَدَاقُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَزْوَاجِهِ‘‘ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 1426)۔ یعنی حضرت عائشہؓ سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کا مہر کتنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم کا مہر اپنی بیویوں کے لیے بارہ اوقیہ اور ایک نش تھا۔ انہوں نے کہا کیا تم جانتے ہو کہ نش کیا ہے۔ راوی نے کہا کہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ نصف اوقیہ۔ یہ تقریباً پانچ سو درہم ہوا۔ یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مہر اپنی بیویوں کے لیے تھا۔
(5) ام حبیبہ کا مہر سب سے زیادہ تھا۔ روایت کے مطابق، فَزَوَّجَهَا النَّجَاشِيُّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَمْهَرَهَا عَنْهُ أَرْبَعَةَ آلَافٍ (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 2107)۔یعنی نجاشی نے ام حبیبہ کی شادی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی، اور ان کا مہر چار ہزار درہم آپ کی طرف سےنجاشی نے خود مقرر کیا تھا۔