فقہاء کی رائے
مہر کا اصل شرعی طریقہ یہ ہے کہ اس کو نکاح کے وقت فوراً ادا کر دیا جائے۔ اسی پر اکثر صحابہ کا عمل رہا ہے۔ گویا اصل مہر وہی ہے جو مہر معجل ہو۔ مہر کی دوسری قسم(مہر مؤجل) دوسرا برابر درجہ کا طریقہ نہیں۔ یہ صرف رخصت کا طریقہ ہے۔ اصلاً مہر کی ایک ہی قسم ہے، اور وہ فوراً ادا کر دینا ہے، تاہم بطور رخصت یہ دوسرا طریقہ بھی رکھا گیا ہے تاکہ آدمی حسب ضرورت نکاح کے بعد بھی مقرر مدت پر اس کو ادا کرکے بری الذمہ ہو سکے۔
مہر کے بارے میں تفصیلی ابواب فقہ کی کتابوں میں آئے ہیں۔ عبدالرحمن الجزیری کی کتاب الفقه علی المذاهب الأربعة میں مہر(مباحث الصداق) پر85 صفحات ہیں۔ مہر کے مؤجل یا معجل(تأجيل الصداق وتعجيله) کے مسائل چار صفحات میں بیان ہوئے ہیں۔ اس بارے میں اگرچہ فقہاء کے درمیان بعض اختلافات ہیں مگر وہ تمام تر جزئی ہیں۔ ان جزئی اختلافات سے قطع نظر مختلف فقہاء کے اقوال کا خلاصہ صاحب کتاب کے الفاظ میں یہ ہے:
الحنفية - قالوا::يجوز تأجيل الصداق، وتعجيله كله، أو بعضه، ولكن يشترط أن لا يكون الأجل مجهولاً (حنفیہ کا کہنا ہے کہ مہر کی تاخیر جائزہ ہے۔ اس کا کل یا جزء فوری طور پر دیا بھی جا سکتا ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ مدت غیر متعین نہ ہو)۔
المالكية - قالوا:: فإذا كان الصداق غير معين فإنه يجوز كله. أو بعضه بشرط أن لا يكون الأجل مجهولاً ۔ یعنی مالکیہ کا قول ہے کہ مہر جب غیر معین ہو تو اس کا کل یا جزء جائز ہے اس شرط پر کہ مدت مجہول(غیر متعین) نہ ہو۔
الحنابلة - قالوا: يجوز أن يؤجل الصداق كله. أو بعضه بشرط أن لا يكون الأجل مجهولاً (حنابلہ کہتے ہیں کہ یہ جائز ہے کہ مہر کا کل یا جز ءموخر کیا جائے اس شرط پر کہ مدت مجہول نہ ہو)۔
الشافعية - قالوا: يجوز تأجيل الصداق بشرط أن لا يكون الأجل مجهولاً، سواء كان المؤجل كل الصداق أو بعضه(شافعیہ کا کہنا ہے کہ مہر کا تاخیر جائز ہے اس شرط پر کہ مدت مجہول نہ ہو۔ خواہ مہر کا کل حصہ موجل ہو یا اس کا جزئی حصہ)۔
(الفقه على المذاهب الأربعة ،بيروت2003،جلد 4، صفحہ138-141)