نکاح خیر کا دروازہ
ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے: عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي(جامع الترمذی، حدیث نمبر 3895)۔ یعنی عائشہ روایت کرتی ہیں کہ آپ نے کہا: تم میں سب سے اچھا وہ ہے جواپنے گھر والوں کے لیے اچھا ہو اور میں تم میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے اچھا ہوں۔
اصل یہ ہے کہ ایک مرد و عورت جب نکاح کے تعلق میں اکٹھا ہوتے ہیں تو یہ ان کے لیے زندگی کا بھرپور تجربہ ہوتاہے۔ اس تعلق کے ذریعے ان کو ہر صبح و شام طرح طرح کے تجربے پیش آتے ہیں۔ کبھی اچھے اور کبھی بظاہر برے۔ اُن کو کبھی خوش گوار تجربہ پیش آتا ہے اور کبھی ناخوشگوار تجربہ۔ کسی معاملہ میں اُن کے اندر نفرت کے جذبات بھڑکتے ہیں اور کبھی محبت کے جذبات۔ کبھی وہ خوشی سے دوچار ہوتے ہیں اور کبھی ناخوشی سے۔ کبھی اُن کی انا کو تسکین ملتی ہے اور کبھی اُن کی اَنا پر چوٹ لگتی ہے۔ کبھی وہ اعتراف کی صورت حال میں ہوتے ہیں اور کبھی بے اعترافی کی صورت حال میں۔ کبھی حقوق کی ادائیگی کا موقع ہوتاہے اور کبھی حقوق کے انکار کا موقع، وغیرہ۔
گھر کے اندرپیش آنے والی یہ مختلف حالتیں ہر عورت اور ہر مرد کے لیے اپنی تیاری کے مواقع ہیں۔ کیوں کہ موجودہ دنیا کی زندگی امتحان کی زندگی ہے۔ ایک طرح کی زندگی انسان کو جنت کی طرف لے جاتی ہے، اور دوسری طرح کی زندگی اُس کو جہنم کا مستحق بنا دیتی ہے۔زندگی کی اس امتحانی نوعیت کا تعلق گھر کے اندر کے معاملات سے بھی ہے، اور گھر کے باہر کے معاملات سے بھی۔
انسان کو چاہیے کہ وہ ان تجربات کو سبق کے خانے میں ڈالے۔ ان تجربات کے ذریعے وہ ہمیشہ خیر کا پہلو تلاش کرے۔ ان تجربات کو وہ ہمیشہ وسیع تر معنی میں لے۔ ایک گھریلو تجربے کو وسیع ترمعنی میں زندگی کے تجربے کے طو رپر دیکھے۔ وہ ہر تجربے میں خیر کا پہلو تلاش کرے۔ اگر وہ ایسا کرے تو نکاح کا تجربہ اس کے لیے پوری زندگی کی اصلاح کا تجربہ بن جائے گا۔