ساس بہو کا مسئلہ
ساس بہو کا روایتی مسئلہ تقریباً ہر گھر میں پایا جاتا ہے، مگر یہ کوئی حقیقی مسئلہ نہیں۔ یہ مسئلہ تمام تر ایک غیر فطری نفسیات کے تحت پیدا ہوا۔ نفسیاتی مسئلہ ہمیشہ سوچ کی سطح پر پیدا ہوتا ہے، اور سوچ کی سطح پر نہایت آسانی سے اس کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔
مثلاً ایک گھر ہے، وہاں ایک چار پائی بچھی ہوئی ہے۔ ماں اس چار پائی کے اوپر بیٹھی ہوئی ہے۔ اس وقت اگر بیٹی وہاں آئے اور وہ بے تکلفی کے ساتھ لیٹ جائے تو اس سے کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوگا۔ لیکن اگرایسا ہو کہ ماں چارپائی پر بیٹھی ہے اور بہو وہاں آ کر لیٹ جائے تو ایسا واقعہ فوراً ایک مسئلہ بن جائے گا۔ اب کہا جائے کہ بہو بہت بدتمیز ہے۔ اس کے ماں باپ نے اس کو ادب نہیں سکھایا، وغیرہ۔
اس صورتِ حال کی ذمہ داری ماں اور بہو دونوں پر عائد ہوتی ہے۔ ماں اگر اپنی بہو کو اپنی بیٹی سمجھے، اور بہو اگر اپنی ساس کو اپنی ماں جیسا درجہ دے تو یہ سارا مسئلہ ختم ہو جائے گا اورساس اور بہو اسی طرح خوش گوار ماحول میں رہنے لگیں گی جس طرح ماں اور بیٹی خوش گوار ماحول میں رہتی ہیں۔
یہ فطرت کا ایک نظام ہے کہ ہر بیٹی کو آخر کار بہو بن کر رہنا پڑتا ہے اور ہر ماں کے ساتھ ایسا پیش آتا ہے کہ وہ ساس بن کر اپنے گھر میں رہے۔ یہ خالق کا بنایا ہوا فطری نظام ہے۔ ہر عورت اور ہر لڑکی کو اس نظام کے ساتھ موافقت کرنا چاہیے۔ جو عورت اور جو لڑکی اس نظام کے ساتھ موافقت نہ کرے، وہ گویا کہ اپنے خالق کے ساتھ سرکشی کر رہی ہے۔
اس قسم کا معاملہ سادہ طور پر انسان اور انسان کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ وہ انسان اور خالق کے درمیان کا معاملہ ہے۔ معاملے کا یہ پہلو تقاضا کرتا ہے کہ لوگ اس معاملے میں انتہائی حد تک سنجیدہ بنیں۔ وہ ایسا کام نہ کریں جو خالق کو ناراض کرنے کا سبب بن جائے۔ انسان کو ناراض کرنا صرف اپنے جیسے ایک انسان کو ناراض کرنا ہے، لیکن خالق کو ناراض کرنا گویا کہ پوری کائنات کے خلا ف جنگ کا اعلان کرنا ہے۔ پھر کون ہے جو پوری کائنات کے ساتھ جنگ کرے اور پھر بھی وہ کامیاب ہو۔