ازدواجی زندگی

قرآن کی سورہ البقرہ میں ازدواجی زندگی کے بارے میں ایک تعلیم اِن الفاظ میں آئی ہے: نِسَاۗؤُکُمْ حَرْثٌ لَّکُمْ ۠ فَاْتُوْا حَرْثَکُمْ اَنّٰى شِئْتُمْ ۡ وَقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِکُمْ ۭ وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّکُمْ مُّلٰقُوْہُ ۭوَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ(2:223) یعنی تمھاری عورتیں تمھاری کھیتیاں ہیں، پس تم اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو، جاؤ۔ اور تم اپنے لیے آگے بھیجو، اور اللہ سے ڈرو اور جان لوکہ تمھیں ضرور اللہ سے ملنا ہے۔ اور ایمان والوں کو خوشخبری دے دو:

Your wives are your fields. Go, then, into your  fields as you will. Do good deeds, and fear God, and know that you shall meet Him. Give good tidings to the believers.

عورتیں تمھارے لیے بمنزلہ کھیت ہیں — یہ نہایت بامعنی تمثیل ہے۔ کھیت مستقبل کی فصل کے لیے ہوتا ہے۔ جب ایک انسان اپنے لیے ایک عورت کا انتخاب کرتا ہے تو وہ گویا اپنے لیے ایک کھیت کا انتخاب کرتاہے، یعنی ایک ایسا کھیت جہاں وہ اپنے مستقبل کے لیے ایسی فصل اگائے جو اُس کے لیے باعتبارِ دنیا بھی مفید ہو اور باعتبار آخرت بھی مفید۔

ایک شخص جب نکاح کرکے اپنے گھر میں ایک خاتون کو لاتا ہے تو وہ اپنے لیے زندگی کے ایک رفیق کا انتخاب کرتاہے۔ یہ خاتون ابتدائی طورپر مرد کے لیے گھر کی رفیق (home partner) ہوتی ہے، لیکن طویل تر زندگی کے اعتبار سے، وہ اُس کےلیے ایک فکری رفیق (intellectual partner) کی حیثیت رکھتی ہے۔ پہلے مقصد کے اعتبار سے، عورت پیدائشی طورپر تیار شدہ ہوتی ہے، لیکن جہاں تک فکری رفیق کی حیثیت سے اپنا رول ادا کرنے کا معاملہ ہے، عورت پیدائشی طورپر اس کے لیے تیار شدہ نہیں ہوتی۔ یہ مرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ نکاح کے بعد عورت کو اِس مقصد کے لیے تیار کرے، تاکہ عورت اور مرد دونوں اُس مطلوب مقام کو پاسکیں جو خالق نے اپنے تخلیقی نقشہ (creation plan) کے مطابق، اُن کے لیے مقدر کیا ہے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔

یہ ایک عام تجربہ ہےکہ نکاح کے بعد ابتدائی طورپر مرد کے لیے عورت دلچسپی کا موضوع ہوتی ہے، لیکن جلد ہی بعد دلچسپی کا یہ دور ختم ہوجاتا ہے۔ اِس کا سبب عورت کی کوئی کمی نہیں ہے، بلکہ اس کا سبب یہ ہے کہ مرد نے عورت کو اِس حیثیت سے تیار نہیں کیا کہ وہ اُس کے لیے طویل تر زندگی میں اس کی فکری رفیق بن سکے۔

قرآن کی مذکورہ آیت میں ’حَرْث‘ (field) کا لفظ استعمالِ اول کے لحاظ سے عورت کی فطری حیثیت کوبتاتاہے۔اِس کے بعد یہ الفاظ ہیں کہ— ’تم اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو، جاؤ‘۔ اس کا مطلب اصلاً بیوی اور خاوند کے تعلق کی نوعیت کو بتانا نہیں، بلکہ اِس میں یہ اشارہ ہے کہ یہ معاملہ تمھارے فطری ذوق سے تعلق رکھتا ہے، اس معاملے میں خود تمھارا فطری ذوق رہنمائی کے لیے کافی ہے۔ زیربحث معاملے میں، اصل قابلِ لحاظ بات یہ ہے کہ— تم اپنے لیے آگے بھیجو۔ یعنی تم عورت کو اس کے استعمالِ ثانی (فکری رفاقت) کے لحاظ سے تیارکرو۔ اِس تعلق کو تم اپنے مستقبل کی تعمیر کا ذریعہ بناؤ۔

حقیقت یہ ہے کہ مرد اگر صحیح معنوں میں اپنی بیوی کو فکری رفیق کی حیثیت سے تیار کرے تو بیوی کی صورت میں وہ اپنے لیے ایک ایسا دانش مند ساتھی پالے گا جو ہر لمحہ اُس کے پاس تبادلہ خیال کے لیے موجود ہو۔ اِس قسم کا ایک ساتھی بلاشبہ کسی شخص کے لیے نہایت قیمتی سرمایہ کی حیثیت رکھتا ہے۔بیوی کے بارےمیں عام تصور یہ ہے کہ وہ اپنے خاوندکی ہوم پارٹنر (home partner) ہے، مگر یہ عورت کا ایک کم تر تصور ہے۔ عورت اُسی طرح اللہ کی ایک تخلیق ہے جس طرح مرد اللہ کی تخلیق ہے۔ تخلیق ِ خداوندی کے شایانِ شان تصور یہ ہے کہ عورت کو مرد کا لائف پارٹنر (life partner) سمجھا جائے۔ گھر کے محدود تصورسے بلند ہو کر زندگی کے وسیع تر تصور کے مطابق، عورت کو اپنا شریکِ حیات بنایا جائے۔ عورت اور مرد دونوں کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو اِس وسیع تر تصور کے مطابق تیار کریں۔

خدا کے تخلیقی نقشہ (creation plan) کے مطابق، انسان کی زندگی دنیا سے لے کر آخرت تک پھیلی ہوئی ہے۔ قبل از موت مرحلہ ٔحیات میں انسان کو اِس طرح رہناہےکہ وہ قبل از موت مرحلۂ حیات میں ایک ایسی مطلوب زندگی گزارے جو موت کے بعد آنے والے ابدی مرحلۂ حیات (eternal life span)میں اس کو فلاح سے ہم کنار کرنے والی ثابت ہو۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom