برابری میں نکاح

عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ نکاح ہمیشہ کُفو میں ہونا چاہیے، غیر کفو میں نہیں۔ یعنی برابری کے رشتوں میں نکاح ہو تو دونوں کے درمیان آسانی کے ساتھ نباہ ہوگا، اور اگر دونوں میں معاشی اور خاندانی اعتبار سے نابرابری ہو تو شوہر اور بیوی دونوں ہمیشہ پریشان رہیں گے۔ مگر یہ صرف ایک مفروضہ ہے۔ نتیجے کے اعتبار سے دیکھا گیا ہے کہ نام نہاد کفو کے درمیان شادی بھی اتنا ہی مسائل کا شکار رہتی ہے جتنا کہ نام نہاد غیر کفو کے درمیان شادی۔ اصل یہ ہے کہ کامیاب شادی کا تعلق کفو یا غیر کفو سے نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق اس بات سے ہے کہ طرفین شادی شدہ زندگی کو گزارنے کا آرٹ جانتے ہوں۔

عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ زوجین میں سے ایک نے اگر مشرقی تعلیم پائی ہے اور دوسرے کو اگر مغربی تعلیم ملی ہو، یا ایک امیر فیملی کا ہو اور دوسرا غریب فیملی کا، یاا ایک گائوں کا ہو اور دوسرا شہر کا، ایک اسمارٹ ہو اور دوسرا غیر اسمارٹ، ایک سفید فام ہو اور دوسرا سیاہ فام، ایک کی عمر زیادہ ہو اور دوسرے کی عمر کم، وغیرہ۔ زوجین کے درمیان اگر اس قسم کا فرق پایا جائے تو یہ نابرابری کی شادی ہے اور ایسی شادی کا ناکام ہونا مقدر ہے۔

مگر یہ ایک غلط مفروضہ ہے۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ گھر کی حیثیت ایک مکمل ادارہ(instituteکی ہے۔ عام ادارے کی طرح، گھر کے ادارے کی بھی مختلف شعبے ہوتے ہیں۔ مذکورہ نابرابری کو مینج(manage) کرنے کا نہایت آسان طریقہ یہ ہے کہ عورت اور مرد دونوں تقسیم کار کے اصول کو اپنا لیں۔ ہر ایک اپنی صلاحیت کے اعتبارسے ایک شعبے کو لے لے اور اس کو اپنی صلاحیت کے مطابق آزادانہ طور پر چلائے۔

تقسیم کار کے اس اصول کی کامیابی کی شرط صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ دونوں فریق یہ بات طے کر لیں کہ انہیں اپنے آپ کو صرف اپنے شعبے تک محدود رکھنا ہے، کسی ایک کو دوسرے کے شعبے میں مداخلت نہیں کرنا ہے۔ نابرابری کے نکاح کا حل تقسیم کار ہے۔ اس کے سوا کوئی اور فارمولا اس مسئلے کا حل نہیں۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom