قوامیت یا باس ازم
قرآن کی سورہ نمبر چار میں ارشاد ہوا ہے کہ: الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ (4:34)یعنی مرد عورتوں کے اوپر قوام ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ مرد عورتوں کے اوپر حاکم ہیں۔ حاکم کا لفظ اپنے ساتھ مخصوص روایات رکھتا ہے۔ اس لفظ سے یہ مفہوم سامنے آتا ہے کہ ایک حاکم ہے اور دوسرا محکوم، مگر قوام کا یہ مطلب نہیں۔ قوام کا مطلب صرف انتظام کار ہے، نہ کہ حاکم یا دوسرے سے برتر۔
موجودہ زمانہ میں بااس اور باس ازم(bossism) کا تصور ایک معروف تصور ہے۔ اس کی مثال سے قوام کے معاملے کو سمجھا جا سکتا ہے۔ قوام کا مطلب صرف یہ ہے کہ مرد گھر کے اندر باس(boss) کی حیثیت رکھتا ہے، ٹھیک اسی طرح جس طرح کسی ادارے یا کمپنی کا ایک باس ہوتا ہے۔ یہ باس کمپنی کے لیے ایک تنظیمی ضرورت ہوتا ہے، وہ کمپنی کا حاکم نہیں ہوتا۔ کہا جاتا ہے — باس ہمیشہ درست ہوتا ہے(boss is always right)۔ اس کا مطلب بھی یہ نہیں کہ باس دوسرے سے برتر ہے۔ یہ اصول صرف اس لیے ہے کہ کسی تنظیم میں جب تک ایک شخص کو اتھارٹی نہ مانا جائے تنظیم کامیابی کے ساتھ نہیں چل سکتی۔
اسی طرح گھر بھی ایک ادارہ۔ اس ادارے کو کامیابی کے ساتھ چلانے کے لیے ایک تنظیمی اتھارٹی (management authority) ضروری ہے۔ قرآن میں اسی اعتبار سے مرد کو قوام کہا گیا ہے۔ کسی گھر کا قوام اس کے مساوی ممبران کے درمیان ایک ناظم کا درجہ رکھتا ہے۔ اس اصول کو نہ ماننا صرف اس قیمت پر ہوگا کہ ہر گھر انارکی کا شکار ہو کر رہ جائے۔
باس ازم ایک ذمہ داری ہے، وہ ایک کے اوپر دوسرے کی برتری کا ٹائٹل نہیں۔ اسی طرح قوامیت بھی ایک ذمہ داری ہے، وہ ایک کے اوپردوسرے کی برتری کے ہم معنی نہیں۔ یہ ایک انتظامی ضرورت کا معاملہ ہے، نہ کہ کسی قسم کی فضیلت کا معاملہ۔ عملی ضرورت اور نظریاتی شرف کے فرق کو اگر پوری طرح سمجھ لیا جائے تو قوام اور قوامیت کے معاملے کو سمجھنا آسان ہو جائے گا۔