عورت اور مرد
عورت اور مرد کے درمیان دو متضاد(opposite) نسبتیں ہیں۔اور وہ ہے کامل حیاتیاتی مطابقت کے باوجود کامل حیاتیاتی فرق۔یہ تخلیق کا انوکھا توازن (unique balance) ہے۔اور یہ ایک اہم تمدنی مقصد کے لیے ہے۔ مگر بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تخلیق کی اس حکمت کو شاید کسی نے نہیں سمجھا۔
قرآن میں اس حکمت کو دولفظوں میں اس طرح بیان کیا گیا ہے: بَعْضُکُمْ مِنْ بَعْضٍ (3:195)۔ یعنی تم ایک دوسرے سے ہو۔ قرآن کی یہ آیت اشارہ کی زبان میں تھی۔ تدبر کے ذریعہ اس کی تفصیل کو جاننا تھا۔ لیکن بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسان نے اس حقیقت کو نہ قرآنی مطالعہ کے ذریعہ سمجھا اور نہ سیکولر مطالعہ کے ذریعہ۔
قدیم تاریخ میں یہ ہوا کہ انسان نے عورت کو مرد کے مقابلے میں کم سمجھا۔ اس بنا پر وہ فطرت کے مطابق، عورت کا صحیح استعمال دریافت نہ کرسکا۔ جدید تہذیب (modern civilization) کے زمانہ میں صنفی مساوات (gender equality) کا نظریہ اختیار کیا گیا۔ مگر یہ جدید نظریہ صرف قدیم نظریہ کا ردعمل (reaction) تھا۔ اس طرح قدیم ذہن اور جدید ذہن، دونوں افراط و تفریط کا شکار ہوئے اور اصل حقیقت تک پہنچنے میں ناکام رہے۔قدیم ذہن کے مطابق، اگر عورت اور مرد کے درمیان صنفی نامساوات (gender inequality) تھی تو جدید ذہن نے بتایا کہ عورت اور مرد کے درمیان صنفی مساوات ہے ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ عورت اور مرد کے درمیان تکمیلی نسبت (gender complementarity) کا تعلق ہے۔
تخلیقی نقشہ کے مطابق عورت اور مرد ایک دوسرے کے لیے کاگ وھیل (cogwheel) کی مانند ہیں۔وہ ایک دوسرے کا تکملہ (complement) ہیں۔ دونوں میں سے ہر ایک کے اندر ایک اضافی خصوصیت (additional quality) ہے جس کے ذریعہ دونوں مل کر مقصدِ تخلیق کو پورا کرتے ہیں۔