عورت معاونِ حیات
قرآن کی سورہ البقرۃ میں عورت اور مرد کے تعلق کے بارے میں ایک آیت آئی ہے، اس کا ترجمہ یہ ہے: تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں۔ پس اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو جائو، اور اپنے لیے آگے بھیجو، اور اللہ سے ڈرو، اور جان لو کہ تمہیں ضرور اس سے ملنا ہے۔ اور ایمان والوں کو خوش خبری دے دو:
And do good beforehand for your selves (2:223)
اس آیت میں اپنے لیے آگے بھیجو(وَقَدِّمُوا لِأَنْفُسِكُمْ ) کا لفظ بنیادی لفظ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی مرکزی لفظ سے پوری آیت کا مفہوم سمجھ میں آتا ہے۔ آیت کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ ہے کہ تمہارا اصل نشانہ یہ ہونا چاہیے کہ تم وہ کام کرو جو مستقبل میں تمہارے لیے مفید بننے والا ہو (قَدِّمُوا مَا يَنْفَعُكُمْ غَدًا)۔ یعنی آدمی موجودہ امتحان کی دنیا میں اپنے آپ کو اس طرح تیار کرے کہ وہ آگے آنے والی آخرت کی دنیا میں کامیاب زندگی حاصل کر سکے۔ یہ کسی انسان کا اصل مقصد حیات ہے۔ آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ اسی مقصد حیات کی نسبت سے عورت کے معاملے کو سمجھو۔ عورت کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ایک معاون حیات کی حیثیت سے پیدا کیا ہے، جس طرح کھیت کسی کسان کے لیے اس کے مقصد کی نسبت سے معاون حیات کا درجہ رکھتا ہے۔
جس زمانے میں یہ قرآنی آیت اتری، اس زمانے میں مدینہ(اور بقیہ دنیا) میں یہ بحث چھڑی ہوئی تھی کہ عورت کا درجہ انسانی زندگی میں کیا ہے۔ اس معاملے میں لوگ اپنے سابق ذہنی نقشے کی بنا پر صرف دو باتیں جانتے تھے— صنفی تسکین اور بقاء نسل۔ قرآن میں بتایا گیا کہ اس قسم کے پہلوئوں سے زیادہ اہم پہلو یہ ہے کہ عورت تمہارے لیے اپنی زندگی کی تعمیر میں ایک معاون کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لیے تم کو چاہیے کہ تم اپنی اس فطری معاون کا بھرپور استعمال کرو اور اس کو اپنی تکمیل حیات کا ذریعہ بنائو۔ عورت کا اس سے کم کوئی تصور عورت کا کم تر تصور ہے۔ نکاح کی صورت میں عورت اور مرد کی یک جائی اس لیے ہوتی ہے، تاکہ دونوں وسیع تر انسانیت کی تعمیر میں اپنا مشترک رول ادا کریں۔