عورت کا مقام
عام طو رپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اسلامی معاشرے میں عورت کا مقام گھر سنبھالنا ہے۔ مرد کا درجہ قوّامیت کا درجہ ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ مرد کمانے والا فرد ہے۔ اس اصول کا ماخذ قرآن کی یہ آیت ہے: الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّہُ بَعْضَہُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِہِمْ (34:4)۔ یعنی مرد، عورتوں کے اوپر قوّام ہیں، اس بنا پر کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر بڑائی دی ہے اور اس بنا پر کہ مرد نے اپنے مال خرچ کیے۔
راقم الحروف کا خیال یہ ہے کہ عورت کے بارے میں یہ کوئی حتمی بات نہیں ہے۔ خود آیت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے۔ قرآن کی مذکورہ آیت کے اصل الفاظ یہ ہیں: وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِہِم (اور اس بنا پر کہ مرد نے اپنے مال خرچ کیے)۔ اگراس آیت کا حتمی مفہوم ہوتا ہے تو الفاظ مختلف ہوناچاہیے تھا۔ مثلاً یہ کہ وَبِمَا یُنْفِقُونَ مِنْ أَمْوَالِهِم (اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال میں سے خرچ کرتے ہیںیا کریں گے)۔ اس اسلوب کی بنا پر اس آیت میں تاویل کی گنجائش موجود ہے۔
آیت کے الفاظ پر غور کرنے کے بعد راقم الحروف کا خیال ہے کہ یہ جملہ(sentence) عورت کے بارے میں کسی حکم شرعی کو نہیں بتاتا ، بلکہ وہ صرف یہ بتاتا ہے کہ معاشرتی حالات کے لحاظ سے عورت کا سماج میں ایک کردار یہ بھی ہے۔ موجودہ زمانے میں معاشرتی اقدار بہت زیادہ بدل گئے ہیں۔ موجودہ حالات میں یہ ایک عملی ضرورت بن گئی ہے کہ شوہر کے ساتھ بیوی بھی کمانے والی فرد بن کر اپنا کردارادا کرے۔ مثلاً موجودہ زمانے میں مہنگائی کی بنا پر یہ عام طور پر صورتِ حال ہے کہ مرد کی اکیلی کمائی گھر کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہوتی۔ اس لیے ضرورت ہوتی ہے کہ عورت بھی کمائی میں حصہ دار بنے۔ بِمَا اَنفَقُو مِن اَموَالِھِم کے معاملے میں بقدر استطاعت عورت بھی مرد کی شریکِ حال بنے۔ سیکولر سوسائٹی میں یہ طریقہ عام طور پر رائج ہوچکا ہے۔ مسلم سماج میں اس طریقہ کو اگر اختیار کیا جائے تو اس میں بہ ظاہر کوئی قباحت نہیں ہے۔