جہیز کی رسم
مسلمانوں میں آج کل جہیز کی جو رسم ہے وہ عین اسی ہندوانہ رسم کی نقل ہے جو برادران وطن کے درمیان تلک کے نام سے رائج ہے۔ پہلے جہیز کا مطلب یہ تھا کہ لڑکی کا سرپرست لڑکی کو نیا گھر بسانے کے لیے ضروری سامان دیدے۔ مگر اس نے باقاعدہ مطالبہ اور خرید و فروخت کی صورت اختیار کرلی ہے۔ لڑکا جتنا زیادہ بڑی تعلیمی ڈگری رکھتا ہویا جتنا زیادہ بڑی کمائی والا ہو اتنا ہی زیادہ شادی کے بازار میں اس کی قیمت بڑھتی چلی جاتی ہے۔
پہلے لڑکی کے والدین لڑکی کو ضروری استعمالی اشیاء بطور جہیز دیتے تھے۔ اب اس میں ناقابل بیان حد تک اضافہ ہوگیا ہے۔ مثلاً صوفہ سیٹ، ڈنر سیٹ، کوکنگ رینج، ٹیلی وژن،موٹر سائیکل، ریفریجریٹر، کار، وغیرہ وغیرہ۔ تاہم اسی پر بس نہیں۔ اسی کے ساتھ خاطب(لڑکا) مخطوبہ(لڑکی) سے بڑی بڑی رقموں کا مطالبہ کرتا ہے یا متوقع رہتاہے جس کی تکمیل کے بغیر شادی لڑکی کے لیے بربادی کے ہم معنی بن جاتی ہے۔
اب بھاری رسموں کا نتیجہ یہ ہے کہ شادی ایک ایسا تعیش بن گئی ہے جو صرف چند خوش نصیب افراد کے بس میں ہو، بے شمار والدین ہیں جو اپنے آپ کو اپنی لڑکیوں کا نکاح کرنے کے لیے بے بس پا رہے ہیں۔ ان کے سامنے ان کی جوان لڑکیاں حسرت ویاس کی تصویر بنی ہوئی ہیں۔ مگر ان کے امکان میں نہیں کہ شادی کے بازار میں بھاری رقم ادا کرکے ان کے لیے شوہر پا سکیں۔ چنانچہ ایسی مثالیں سامنے آ رہی ہیں کہ لڑکیاں خودکشی کر لیتی ہیں۔ مرتد ہو جاتی ہیں اور دوسری برائیوں میں پڑ جاتی ہیں جن کو بیان کرنے کی قلم میں طاقت نہیں۔
جہیز کی یہ صورتیں سادہ طور پر صرف سماجی برائی نہیں ہیں۔ وہ یقینی طور پر ناجائز اور حرام ہیں۔ یہ ایسے اعمال ہیں جن کے ساتھ آدمی کا نماز روزہ بھی اللہ تعالیٰ کے یہاں قبول نہیں کیا جاتا۔
قدیم زمانہ میں موجودہ قسم کے جہیز کا رواج نہ تھا جس میں لڑکی کا والد لڑکے کو سامان اور نقد رقم ادا کرتا ہے۔ تاہم یہ رسم برعکس صورت میں جزئی طور پر پائی جاتی تھی۔ یعنی لڑکی والوں کے مطالبہ پر لڑکے والے کچھ سامان یا نقد لڑکی کو ادا کرتے تھے۔
اس کی وجہ یہ کہ قدیم زمانہ زراعتی زمانہ تھا۔ اس زمانہ میں مال اور کمائی کے اعتبار سے وہ غیرمعمولی فرق نہ تھا جو آج پیدا ہوگیا ہے۔ قدیم زمانہ کی عورت زراعت کے چھوٹے اور ہلکے کام کرتی تھی۔ اس کے مقابلہ میں مرد زیادہ بڑے اور بھاری کام کرتا تھا۔ اس طرح دونوں صنفوں میں جو فرق تھا وہ صرف کچھ ڈگری کا تھا۔
اب موجودہ زمانہ میں کمائی کے نئے اور اتھاہ مواقع پیدا ہوگئے ہیں۔ مگر عورت(خاص طور پر مشرقی معاشرہ کی عورت) بڑی حد تک اپنے سابقہ مقام پر ہے۔ جب کہ مرد کمائی کے اعتبار سے کم ازکم امکانی طور پر، ناقابل بیان حد تک آگے بڑھ گیا ہے۔ اس صورت حال نے شادی کے بازار میں عورت کی اہمیت گھٹا دی ہے۔ اور مرد کی اہمیت اس کے مقابلہ میں بہت زیادہ بڑھا دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب لڑکی والے مطالبہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ اب یہ حیثیت تمام تر لڑکے کی طرف چلی گئی ہے۔
جیسا کہ عرض کیا گیا۔قدیم زمانہ میں زیادہ تر خاطب(لڑکے) سے جہیز کا مطالبہ کیا جاتا تھا۔ اس وقت علماء سے اس کی بابت فتویٰ پوچھا گیا تو انہوں نے اس کو رشوت قرار دیا۔ بوقت نکاح اس قسم کی رقم لینے اور دینے کو انہوں نے حرام بتایا اور اس کو اس حدیث کے تابع ٹھہرایا: لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الرَّاشِي وَالْمُرْتَشِي(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 2313)۔یعنی رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے پر اللہ کی لعنت ہے۔
مجموعہ فتاویٰ مولانا عبدالحئی(2/74) میں اس نوعیت کے ایک استفتاء کے جواب میں یہ مسئلہ نقل کیا گیا ہے:
لعن رسول الله صلی الله علیه وسلم الراشی و المرتشی ومن الرشو مااخذہ ولی المرأۃ قبل النکاح ،اذا کان بالسوال اوکان اعطاء الزوج بناء علی عدم رضائه علی تقدیر عدمه(الوسیلۃ الاحمدیہ شرح الطریقۃ المحمدیۃ)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت لینے والے اور رشوت دینے والے پر لعنت کی ہے۔ اور عورت کا سرپرست نکاح سے پہلے جو کچھ لے وہ بھی رشوت ہے، خواہ مطالبہ کرکے لے، یا شوہر اس وجہ سے دے کہ اس کے بغیر عورت کا سرپرست نکاح پر راضی نہ تھا۔
موجودہ زمانہ میں لوگ شادی کے موقع پر نہایت اطمینان کے ساتھ بڑے بڑے سامان اور رقمیں لیتے ہیں۔ انہیں خیال نہیں آتا کہ اس میں کوئی ہرج ہے۔ حالاں کہ یہ عین اس حدیث کا مصداق ہے جو صحیح بخاری میں آئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا جب کہ آدمی جو کچھ لے گا اس کے بارے میں اس کو یہ پرواہ نہ ہوگی کہ وہ حلال ہے یا حرام(يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ، لاَ يُبَالِي المَرْءُ مَا أَخَذَ مِنْهُ، أَمِنَ الحَلاَلِ أَمْ مِنَ الحَرَامِ) صحیح البخاری، حدیث نمبر 2059۔
شادی کے معاملہ میں نمائشی اور مسرفانہ رسمیں جو آج کل مسلمانوں میں رائج ہیں ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ تمام تر ملک کی غیر مسلم قوموں کے زیر اثر اختیار کی گئی ہیں۔ یہ سب اسلام کی اطاعت نہیں ہے، بلکہ غیر مسلم قوموں کی مشابہت ہے۔ اور حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انہیں میں سے ہے(مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ) سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 4031۔
کوئی عالم اگر دھوتی پہن کر بازار میں نکلے تو تمام مسلمان چیخ اٹھیں گے۔ مگر اس سے زیادہ بڑے بڑے معاملات میں تمام عالم غیر قوموں کی نقل کر رہے ہیں اوراس پر کوئی چیخ بلند نہیں ہوتی۔
مولانا محمد یوسف کاندھلوی نے حیاۃ الصحابہ(جلد دوم) میں ایک باب اس عنوان کے تحت قائم کیا ہے: نکاح میں کافروں کی مشابہت پر انکار۔ اس کے ذیل میں انہوں نے ایک روایت نقل کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:
(الإنكار على من تشبه بالكفرة في النكاح)
عن عروة بن رويم- أن عبد اللَّه بن قرط الثّمالي كان يعس بحمص ذات ليلة وكان عاملا لعمر، فمرت به عروس وهم يوقدون النيران بين يديها، فضربهم بدرّته حتى تفرقوا عن عروسهم، فلما أصبح قعد على منبره فحمد اللَّه وأثنى عليه فقال: إن أبا جندلة نكح أمامة فصنع لها حثيات من طعام، فرحم اللَّه أبا جندلة وصلى على أمامة، ولعن اللَّه عروسكم البارحة، أوقدوا النيران وتشبّهوا بالكفرة، واللَّه مطفئ نورهم؛ قال: وعبد اللَّه بن قرط من أصحاب النبي صلى اللَّه عليه وسلّم(الاصابة في تمييز الصحابة لابن حجر العسقلان،جلد7، صفحہ 65)۔
عروہ بن رویم کہتے ہیں کہ عبداللہ بن قرط شمالی حمص میں ایک رات خبر گیری کے لیے پھر رہے تھے۔ وہ خلیفہ ثانی عمر بن خطاب کی طرف سے وہاں کے حاکم تھے۔ انہوں نے دولہا دولہن کی ایک بارات گزرتے ہوئے دیکھی۔ لوگ اس کے آگے آگ جلا کر چل رہے تھے۔ حضرت عبداللہ نے ان کو اپنے درہ سے مارا، یہاں تک کہ لوگ بھاگ گئے۔ جب صبح ہوئی تو وہ اپنے منبر پر بیٹھے۔ انہوں نے اللہ کی حمد و ثنا کی اور کہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ابو جندل نے امامہ سے نکاح کیا۔ اور ان کے لیے تھوڑا سا کھانا تیار کیا۔ تو اللہ ابو جندلہ پر رحم کرے اور امامہ پر بھی رحمت فرمائے۔ اور اللہ گزشتہ رات کے تمہارے دولہا دولہن پر لعنت کرے۔ انہوں نے آگ روشن کی اور کافروں کے ساتھ مشابہت اختیار کی۔ مگر اللہ ان کی روشنی کو بجھا دینے والا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ عبداللہ بن قرط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے تھے۔
ایک وقت تھا کہ شادی میں نسبتاً کم تر درجہ کی غلط رسوم پر اسلام کے حاکم لوگوں کو کوڑے مارتے تھے، اور علماء ان کے حرام ہونے کا فتویٰ دیتے تھے۔ آج ان سے بہت زیادہ غلط رسوم مسلم شادیوں میں عام طور پررائج ہوگئی ہیں، مگر ان کے خلاف کوئی اٹھنے والا نہیں۔ حتیٰ کہ جو لوگ بظاہر اس کے خلاف بولتے ہیں، وہ بھی اس وقت اسی جاہلانہ دھوم میں شریک ہو جاتے ہیں، جب کہ یہ دھوم ان کی اولاد یا ان کے اپنے لوگوں کی طرف سے کی گئی ہو۔