گھریلو جھگڑے

اکثر گھروں میں اہل خاندان کے درمیان جھگڑے جاری رہتے ہیں۔ یہ جھگڑے زیادہ تر نفسیاتی ہوتے ہیں۔ حقیقی معنوں میں ان کا کوئی مادی سبب نہیں ہوتا۔ لوگ اگر صبر و اعراض کی حکمت جان لیں تو اس قسم کے جھگڑے اپنے آپ ختم ہوجائیں۔ ہر گھر امن کا گھر بن جائے۔

ایک مشترک خاندان کی مثال ہے۔ وہاں دو بہوئیں ایک ساتھ رہتی تھیں۔ دونوں کے کام کے لیے دو الگ الگ خادمائیں تھیں۔ دونوں خادماؤں کے درمیان فطری طور پرکبھی کبھی تکرار ہوجاتی تھی۔ ایک بار ایسا ہوا کہ تکرار کے دوران ایک خادمہ نے دوسری خادمہ کو کہہ دیا کہ تمہاری بی بی جی تم کو کچھ نہیں بولتیں اس لیے تم شیطان ہوگئی ہو۔ خادمہ نے اپنی مالکہ سے اس کو نقل کیا تو بات کچھ بدل گئی۔ اس نے اس بات کو ان لفظوں میں نقل کیا: وہ کہہ رہی تھی کہ تمہاری بی بی جی نے تم کو شیطان بنا دیا ہے۔ اس کے بعد اس خاتون نے اس بات کو جب اپنے شوہر سے نقل کیا تو بات کچھ اور بدل کر اس طرح ہوگئی: تم بھی شیطان، تمہاری بی بی جی بھی شیطان۔ یہ سن کر ان کا شوہر غصہ ہوگیا اور گھر میں ایک طوفان برپا ہوگیا۔ دونوں بہوئیں ایک دوسرے سے نفرت کرنے لگیں۔ گھر کا سکون درہم برہم ہوگیا۔

اس طرح کے معاملات میں پہلا بہتر طریقہ یہ ہے کہ آدمی ان کو نظر انداز کردے۔ وہ سنی ہوئی بات کا کوئی اثر نہ لے اور نہ اس کو دوسرے سے نقل کرے۔ یہ رویہ اگر اختیار کیا جائے تو مسئلہ سرے سے پیدا ہی نہ ہوگا۔

دوسری صورت یہ ہے کہ سننے والا صرف ایک پارٹی کی بات سن کر کوئی رائے نہ بنائے۔ وہ غیر جانبداری کے ساتھ پہلے دونوں پارٹی کی بات سنے اور اس کے بعد ٹھنڈے طریقہ سے ایسی رائے قائم کرے جو انصاف کے مطابق ہو۔ وہ اصل بات کو گھٹانے یا بڑھانے کی غلطی نہ کرے بلکہ بات کو ویسا ہی لے جیسا کہ وہ ہے۔ ان دو طریقوں کے سوا ہر دوسرا طریقہ فساد پیدا کرنے والا ہے ، وہ آخر کار پورے خاندان میں بگاڑ پیدا کردیتا ہے۔

اصل یہ ہے کہ جب کچھ لوگ مل جل کر رہتے ہیں تو لازمی طورپر ان کے درمیان کچھ خلافِ مزاج واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ ان باتوں کو لے کر دوسروں سے لڑنا یا جھگڑنا مسئلہ کا حل نہیں۔ کیوں کہ اس قسم کا اختلاف ایک فطری امر ہے اور جو چیز فطری امر کی حیثیت رکھتی ہو اس کو مٹانا کسی کے لیے بھی ممکن نہیں۔ اس طرح کے مسائل کا حل صبر و اعراض ہے، نہ کہ ان کو لے کر لڑنا جھگڑنا۔

مزید یہ کہ اس طرح کی باتوں پر آدمی کے اندر جو غصہ بھڑکتا ہے وہ ہمیشہ وقتی ہوتا ہے، وہ آخرکار ختم ہوجانے والا ہے۔ ایسی حالت میں بہترین طریقہ یہ ہے کہ آدمی ایسی بات پیش آنے کے موقع پر دو منٹ کے لیے چپ رہے، وہ ردّ عمل کے بجائے صبر کا طریقہ اختیار کرلے۔ اگر وہ ایسا کرے تو چند منٹ کے بعد اس کا غصہ ختم ہوجائے گا اور وہ اسی طرح ایک معتدل انسان بن جائے گا جس طرح وہ واقعہ سے پہلے ایک معتدل انسان نظر آتا تھا۔

اس معاملہ کا سب سے زیادہ اہم پہلو یہ ہے کہ ہر آدمی کے اندر کچھ مائنس پائنٹ ہوتے ہیں اور کچھ پلس پائنٹ ہوتے ہیں۔ کوئی بھی مرد یا عورت اس سے خالی نہیں۔ جب کسی آدمی کو غصہ آجائے تو یہ ہوتا ہے کہ وہ فریق ثانی کے پلس پائنٹ کو بھول جاتا ہے۔ اس کو اس وقت فریق ثانی کا صرف مائنس پائنٹ یاد رہتا ہے۔ یہی ذہنی حالت آدمی کو غیر معتدل بنا دیتی ہے۔ وہ ایسی روش اختیار کرلیتا ہے جس کو وہ معتدل حالت میں اختیار کرنے والا نہ تھا۔

ایسی حالت میں اس مسئلہ کا فطری حل یہ ہے کہ جب بھی کسی کے اندر دوسرے کے خلاف اشتعال پیدا ہو تو وہ اپنے آپ کو کنٹرول کرکے غیر جانب دارانہ انداز میں سوچے۔ وہ فریق ثانی کے پلس پائنٹ کو سوچے یا اس کی شخصیت کے مثبت پہلوؤں کو یادکرے۔ ایسا کرتے ہی یہ ہوگا کہ اس کا انتقامی جوش ٹھنڈا پڑ جائے گا۔ یہاں تک کہ وہ خود اپنے آپ کو ملامت کرے گا کہ میں نے ایک شخص کے 99 پہلوؤں کو بھلا دیا اور اس کی شخصیت کے ایک پہلو کو لے کر اس کے خلاف بھڑک اٹھا۔

خاندان میں بگاڑ ہمیشہ کسی چھوٹی بات پر شروع ہوتا ہے۔ اگر شروع ہی میں اُس پر قابو پالیا جائے تو کبھی کوئی مسئلہ بڑا مسئلہ نہ بنے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom