صنفی مساوات
دہلی کی ایک سیمینار میں میری ملاقات ایک ریٹائرڈ جج سے ہوئی۔ انہوں نے کہا ------ مولانا صاحب، آپ جانتے ہیں کہ اسلام کا سب سے زیادہ کمزور پوائنٹ کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ اسلام صنفی مساوات(gender equality) کو نہیں مانتا۔ آج کے انسان کے لیے اس قسم کا تصور کبھی قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ آج کا زمانہ صنفی مساوات کا زمانہ ہے، جب کہ اسلام صنفی نامساوات(gender inequality) کی بات کرتا ہے۔
موجودہ زمانے میں یہ بات بہت زیادہ کہی جاتی ہے، لیکن اس کے پیچھے کوئی گہری سوچ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جس چیز کو صنفی نامساوات کہا جاتا ہے، وہ صنفی فرق کا معاملہ ہے، نہ کہ صنفی نامساوات کا معاملہ۔ ہماری دنیا پوری کی پوری اسی فرق کے اصول پر قائم ہے۔ اور عورت اور مرد کا معاملہ بلاشبہ اس عام اصول سے مستثنیٰ نہیں ہو سکتا۔
فرق کوئی منفی (negative) چیز نہیں، فرق مکمل طور پر ایک مثبت(positive) چیز ہے۔ یہ فرق ایسا ہی ہے جیسے ایک گاڑی کے دو پہیے۔ ایک پہیہ دوسرے پہیے کے مقابلے میں غیر مساوی نہیں۔ ایک پہیہ دوسرے پہیے کے لیے تکمیلی حصہ(complementary part) کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی معاملہ عورت اور مرد کا ہے۔ عورت اور مرد کے درمیان فطرت نے حیاتیاتی اور نفسیاتی فرق رکھا ہے۔ یہ فرق اسی لیے ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے لیے بہتر رفیق حیات بنیں، دونوں ایک دوسرے کے لیے تکمیلی حصے کا رول ادا کریں۔
صنفی مساوات کا تصور ایک غیر فطری تصور ہے۔ وہ زوجین کے درمیان غیر ضروری نزاع پیدا کرنے والا ہے۔ اس کے مقابلے میں صنفی فرق کا تصور ایک فطری تصور ہے۔ وہ زوجین کے درمیان تعاون کا ذہن پیدا کرتا ہے۔ وہ زوجین کو اس قابل بناتا ہے کہ دونوں دو پہیوں کی طرح باہم مل کر زندگی کی گاڑی کامیابی کے ساتھ چلاتے رہیں۔