نکاح کا معاملہ

عام طور پر مشہور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: النِّكَاحُ مِنْ سُنَّتِي، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي(نکاح میری سنت سے ہے، پس جو شخص میری سنت سے انحراف کرے تو وہ مجھ سے نہیں) یہ پورا جملہ اس صورت میں حدیث نہیں ہے۔ ابن ماجہ کی روایت کے مطابق، حدیث کے اصل الفاظ صرف یہ ہیں: النِّكَاحُ مِنْ سُنَّتِي، فَمَنْ لَمْ يَعْمَلْ بِسُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 1846)۔

البتہ ایک اور روایت میں بقیہ الفاظ آئے ہیں۔ ایک تفصیلی روایت میں آیا ہے کہ تین صحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادات کے بارے میں حضرت عائشہ سے پوچھا۔ حضرت عائشہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادات کے بارے میں جو بتایا وہ انہیں کم دکھائی دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر نہیں اس لیے ہمیں زیادہ عمل کرنا چاہیے۔ چنانچہ ان میں سے ایک نے کہا کہ میں ساری رات نماز پڑھوں گا۔ دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا۔ تیسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ کے لیے ازدواجی زندگی کو ترک کر دوں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ خدا کی قسم میں تم لوگوں سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں۔ لیکن میں روزہ رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا۔ نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں۔ اور عورتوں سے ازدواجی تعلق بھی قائم کرتا ہوں۔ پس جو شخص میری سنت سے اعراض کرے وہ مجھ سے نہیں( فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي) صحیح البخاری، حدیث نمبر 5063۔

جیسا کہ متن سے واضح ہے، حدیث میں فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي کا تعلق تمام شرعی اعمال سے ہے، نہ کہ مخصوص طور پر نکاح سے۔ دوسری بات یہ کہ اس حدیث کا تعلق سادہ طور پرصرف نکاح نہ کرنے سے نہیں ہے، بلکہ اعتقادی طور پر نکاح کو قابل ترک سمجھنے سے ہے(فتح الباری، جلد 9، صفحہ 105-6)

اصل یہ ہے کہ نکاح کی حیثیت نماز کی طرح کسی لازمی فریضہ کی نہیں۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ جو شخص نکاح نہ کرے وہ تارکِ صلاۃ کی طرح گنہگار ہو جائے، یا اس کا ایمان ناقص رہے گا(صحیح البخاری، حدیث نمبر 5065)۔ اس معاملہ میں اصل مطلوب چیز باعفت زندگی ہے، نہ کہ ہر حال میں اور لازمی طور پر نکاح کرنا۔ کوئی گروہ اگر اجتماعی طور پر نکاح کا طریقہ چھوڑ دے تو یہ یقینا درست نہ ہوگا۔ کیوں کہ ایسی صورت میں بقاء نسل خطرہ میں پڑ جائے گی۔ لیکن اگر انفرادی طور پر کوئی شخص اپنے حالات کے اعتبار سے نکاح نہ کرنے کا فیصلہ کرے تو ایسا کرنا اس کے لیے عین جائز ہوگا، بشرطیکہ وہ اپنی عفت کو محفوظ رکھے۔

تاریخ میں بہت سی ایسی دینی شخصیتیں پائی جاتی ہیں جنہوں نے نکاح نہیں کیا اور پوری زندگی غیر ازدواجی حالت میں گزار دی۔ پیغمبروں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس کی ایک مثال ہیں۔ امت محمدی میں بھی کئی ایسے ممتاز بزرگ پائے جاتے ہیں جنہوں نے ساری عمر نکاح نہیں کیا۔ مثال کے طور پر امام نووی(وفات676) اور امام ابن تیمیہ(وفات728)۔ اسی طرح موجودہ زمانہ میں سیدجمال الدین افغانی وغیرہ۔ اگر نکاح مطلق طور پر مطلوب ہوتا اور نکاح سے اعراض دین سے اعراض کے ہم معنی ہوتا تو ایسا نہیں ہو سکتا تھا کہ مذکورہ قسم کی شخصیتیں نکاح کے بغیر زندگی گزاریں اور اسی حال میں دنیا سے چلی جائیں۔

فقہ کی زبان میں، نکاح حسن لذاتہ نہیں ہے، بلکہ حسن لغیرہ ہے۔ یعنی وہ بذات خود مطلوب نہیں ہے بلکہ ایک اور ضرورت کے تحت مطلوب ہے اور وہ بقائے نسل اور پاکدامنی ہے۔ چونکہ مرد اور عورت کے درمیان ازدواجی تعلق کے بغیر نسل انسانی کا باقی رہنا ممکن نہیں اس لیے نکاح کی حیثیت ایک اجتماعی فریضہ کی ہے۔ لیکن وہ ہر فرد پر لازم نہیں۔ کوئی فرد اگر اپنے ذاتی مصالح کی بنا پر غیر ازدواجی زندگی گزارنے کا فیصلہ کرے تو ایسا کرنا اس کے لیے عین جائز ہوگا۔ ایسی حالت میں شریعت اس سے پاکدامنی کا تقاضا کرے گی نہ کہ جبری ازدواج کا۔

نکاح کی دینی اہمیت اصلاً اس اعتبار سے ہے کہ وہ بقاء نسل کے مقصد کو حاصل کرنے کا جائز طریقہ ہے۔ مرد اور عورت اگر نکاح کے بغیر باہم ملیں تو اس کے ذریعہ سے بھی نسل انسانی کا سلسلہ جاری رہ سکتا ہے۔ مگر یہ طریقہ اسلام میں قطعی طور پر حرام ہے۔ اسلام میں بقاء نسل مطلوب ہے مگر یہ بقاء نسل نکاح کی صورت میں ہونا چاہیے، نہ کہ اس کے بغیر۔

بعض افراد ایسے ہو سکتے ہیں جو یہ محسوس کریں کہ اگر وہ ازدواجی زندگی کی ذمہ داریوں سے اپنے کو آزاد رکھیں تو وہ عفیف بھی رہیں گے اور اسی کے ساتھ اعلیٰ انسانی مقاصد کے لیے زیادہ خدمات انجام دے سکیں گے۔ ان افراد کے لیے ایسا کرنا نہ صرف جائز ہے بلکہ مخصوص حالات میں باعث ثواب بھی ہے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom