مسرفانہ تقریبات

نکاح کے ارکان و شروط کے بارے میں فقہاء کے درمیان کچھ لفظی اختلافات پائے جاتے ہیں۔ تاہم اس سے قطع نظر، اصل یہ ہے کہ اسلامی نکاح صرف طرفین کے ایجاب و قبول سے واقع ہو جاتا ہے، بشرطیکہ اس کا اعلان بھی کیا گیا ہو، اور ناکح نے منکوحہ کو اس کی ضروری مہر ادا کر دی ہو۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اسلام میں نکاح اور شادی کا معاملہ کتنا زیادہ سادہ اور سہل ہے۔

مگر موجودہ زمانہ میں مسلم شادیوں میں ایسے برے رواج شامل ہوگئے ہیں جنہوں نے ایک جائز فعل کو ناجائز فعل میں تبدیل کر دیا ہے۔ ایک یہ کہ شادی کو خاندانی وقار کا مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کے نتیجہ میں نکاح کی سادہ اسلامی تقریب مصنوعی دھوم اور بے جا نمائش کی تقریب بن گئی ہے۔ اس دھوم اور نمائش کو قائم رکھنے کے لیے لوگ مالی اعتبار سے لٹ جاتے ہیں۔ جائیداد بیچ دیتے ہیں اور سودی قرض کی لعنت میں پھنس جاتے ہیں۔ ایک دن کی ظاہری دھوم کی خاطر وہ اپنی پوری زندگی کو بے دھوم بنا لیتے ہیں۔

یہ تمام چیزیں سراسر غیر اسلامی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نکاح کی تقریب کو انتہائی حد تک سادہ اور بے خرچ ہونا چاہیے۔ وہ ایسا ہی ہونا چاہیے جیسے نماز کا وقت آیا اور آدمی نے مسجد میں جا کر نماز پڑھ لیا۔ نکاح اور شادی کو ایک سنجیدہ فریضہ کی ادائیگی کا دن ہونا چاہیے۔ نہ کہ شخصی حیثیت یا خاندانی عزت کے اظہار کا دن۔ حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إِنَّ أَعْظَمَ النِّكَاحِ بَرَكَةً أَيْسَرُهُ مَؤُونَةً(مسند احمد، حدیث نمبر 24529)۔ یعنی بے شک سب سے زیادہ برکت والا نکاح وہ ہے جو سب سے زیادہ ہلکا اور کم خرچ ہو۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخصوص مصالح کی بنا پر کئی نکاح کی اجازت تھی۔ چنانچہ آپ نے مختلف اوقات میں گیارہ خواتین سے نکاح کیا۔ نو خواتین بوقت وفات آپ کے یہاں موجود تھیں۔ ان میں سے کسی بھی نکاح کے موقع پر کسی بھی قسم کی کوئی نمائشی تقریب نہیں کی گئی۔

مثلاً آپ کی ایک اہلیہ سودہ بنت زمعہ تھیں۔ حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد مکہ میں ان کے ساتھ آپ کا نکاح ہوا۔ سو وہ ایک بیوہ خاتون تھیں۔ آپ کی طرف سے خولہ بنت حکیم نکاح کا پیغام لے کر گئیں۔ انہوں نے پہلے سودہ سے اس کا ذکر کیا۔ سودہ نے کہا کہ اگر میرا باپ راضی ہو تو مجھے کوئی عذر نہیں۔ چنانچہ خولہ نے سودہ کے باپ سے گفتگو کی۔ انہوں نے اس رشتہ سے اتفاق کیا۔ اس کے بعد آپ سودہ بنت زمعہ کے مکان پر گئے اور وہاں سادہ طور پر نکاح پڑھا دیا گیا۔

اصحاب رسول کا طریقہ بھی ہمیشہ یہی رہا۔ حتیٰ کہ صحابہ میں جو لوگ صاحب مال تھے، انہوں نے بھی ہمیشہ سادہ اور بے خرچ انداز میں نکاح کیا۔ مثال کے طور پر حضرت عبدالرحمن بن عوف ایک تاجر تھے۔ وہ ان چند صحابہ میں تھے جو مالدار شمار کیے جاتے تھے۔ انہوں نے مدینہ میں ایک خاتون سے نکاح کیا۔

امام احمد نے حضرت انس کے واسطہ سے نقل کیا ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف کی مواخاۃ مدینہ میں ایک ایسے مسلمان کے ساتھ کی گئی جو بہت مالدار تھے۔ انہوں نے اپنے نصف مال کی پیش کش کی۔ مگر عبدالرحمن بن عوف نے ان کے مال میں سے کچھ نہیں لیا۔ انہوں نے مدینہ میں تجارت شروع کر دی۔ یہاں تک کہ وہ خود ایک مال دار شخص ہوگئے۔

حضرت عبدالرحمن بن عوف ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آئے تو ان کے کپڑے پر خوشبو کا اثر تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمانی زبان میں فرمایا: مَهْيَمْ يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ ( کیا بات ہے، عبد الرحمن)۔ انہوں نے کہا:  تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً مِنَ الْأَنْصَارِ(اے خدا کے رسولٗ میں نے ایک انصاری عورت سے نکاح کر لیا ہے)مسند احمد، حدیث نمبر 12685۔

اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف اگرچہ مدینہ میں تھے مگر انہوں نے اپنے نکاح میں دھوم والی کوئی تقریب نہیں کی۔ حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ کے قریبی اصحاب کو بھی شادی کی تقریب میں مدعو نہیں کیا۔ سادہ طور پر محض ایجاب و قبول کے ذریعہ نکاح کر لیا۔ اور مقررہ مہر ادا کرکے ازدواجی زندگی گزارنے لگے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom