ازدواجی زندگی
ایک شادی شدہ جوڑے سے میری ملاقات ہوئی۔ان کو نصیحت کرتے ہوئے میں نے کہا کہ شادی شدہ زندگی یہ ہے کہ دو آدمی سنجیدہ فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ باہم مل کر زندگی کا مشترک سفر طے کریں گے۔ یہ سفر پورا کا پورا تجربات کی صورت میں گزرتا ہے۔ کبھی خوش گوار تجربہ اور کبھی نا خوش گوار تجربہ۔
آپ دونوں کو میری نصیحت صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ جب اس مشترک سفر میں آپ دونوں کو کوئی خوش گوار تجربہ گزرے تو اس پر اللہ رب العالمین کا شکر ادا کیجیے، اور اپنے سفر کو مثبت ذہن کے ساتھ جاری رکھیے۔ اس کے برعکس، اگر آپ کو اس سفر میں کوئی نا خوش گوار تجربہ پیش آئے تو اس سے کوئی سبق سیکھنے کی کوشش کیجیے۔ کیوں کہ ہر نا خوش گوار تجربہ ہمیشہ ایک نیا سبق لے کر آتا ہے۔ وہ اس لیے ہوتا ہے کہ آپ سفر کا اگلا مرحلہ زیادہ بہتر طور پر گزاریں۔
شادی شدہ زندگی اجتماعیت کی اکائی ہے۔ آپ انفرادی زندگی اپنی مرضی کے مطابق گزار سکتے ہیں۔ لیکن اجتماعی زندگی میں دوسروں سے نبھانا ضروری ہوجاتا ہے۔ دوسروں سے نبھانے کا آرٹ سیکھے بغیر اجتماعی زندگی کامیاب نہیں ہوسکتی، خواہ شادی شدہ زندگی ہو یاکوئی اور سماجی زندگی۔
شادی شدہ زندگی صرف شادی کے لیے نہیں ہوتی۔ بلکہ وہ تجربہ سیکھنے کے لیے ہوتی ہے۔ وہ اس لیے ہوتی ہے کہ آدمی یہ سیکھے کہ دوسروں کے ساتھ کامیاب زندگی گزارنے کا طریقہ کیا ہے۔ تجربہ ہمیشہ کئی قسم کا ہوتا ہے۔ تجربے کی زندگی میں خوشگوار واقعات بھی پیش آتے ہیں،اور ناخوشگوار بھی۔ تاہم ہر تجربے میں کوئی نہ کوئی سبق ضرور موجود ہوتا ہے۔ کبھی ایک نئے اصول کی دریافت کی صورت میں ، اور کبھی کسی عملی رہنمائی کی صورت میں ، اور دونوں بلاشبہ یکساں طور پر مفید ہے۔جس آدمی کی زندگی تجربہ سے خالی ہو،اس کی زندگی حکمت (wisdom) سے خالی ہو گی۔
کامیاب ازدواجی زندگی
ہرعورت اور مرد کے ذہن میں شادی سے پہلے آئڈیل شوہر اور آئڈیل بیوی کا تصور بسا ہوا ہوتا ہے۔ مگر شادی کے بعد دونوں محسوس کرتے ہیں کہ انہوں نے جس کو اپنی زندگی کا ساتھی بنایا ہے وہ ان کے آئڈیل سے کم ہے۔ یہی احساس مسئلہ پیدا کرتا ہے۔ عورت اور مرد دونوں شعوری یا غیرشعوری طورپر یہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ ان کا انتخاب درست نہ تھا۔
اس احساس کے آتے ہی دونوں کے درمیان اختلافات شروع ہوجاتے ہیں جس کا نتیجہ دو میں سے ایک کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ تلخ ازدواجی زندگی یا طلاق۔ مگر یہ دونوں ہی یکساں طورپر غلط اور غیر فطری ہیں۔
ایک نوجوان سے گفتگو ہوئی، جس کا ذکر میں نے اپنی ڈائری 3 دسمبر 1985 میں ان الفاظ میں کیا ہے۔ـ" گفتگو کے دوران نوجوان نے اپنی شادی کا ذکر کیا۔ انھوں نے کہا کہ میری شادی میرے ماں باپ نے کردی ،مگر میری جو بیوی ہے، وہ مجھ کو پسند نہیں۔ میں نے کہا کہ سب سے زیادہ پسندیدہ شادی وہ ہے، جو ناپسندیدہ شادی ہو۔ میں نے کہا کہ میرے اس قول کو آپ لکھ لیجیے اور اس کو 20 برس بعد دیکھیے گا۔ کیوں کہ ان الفاظ کی معنویت کو آپ آج سمجھ نہیں سکتے۔ اس کی معنویت آپ کی سمجھ میں اس وقت آئے گی جب کہ میری طرح آپ کے بال سفید ہوچکے ہوں گے۔ـ"
اصل یہ ہے کہ شوہر اور بیوی کے درمیان اختلاف کا سبب یہ نہیں ہوتا کہ دونوں کا انتخاب غلط تھا۔ اس کا سبب صرف یہ ہوتا ہے کہ دونوں فطرت کی ایک حقیقت کو سمجھنے میں ناکام رہے۔ وہ یہ کہ اختلاف زندگی کا ایک حصہ ہے، وہ کسی خاص عورت یا کسی مرد کا حصہ نہیں۔
یہی اس مسئلہ کا واحدحل ہے۔ عورت اور مرد دونوں اگر یہ سمجھ لیں کہ اُن کے ساتھ جو کچھ پیش آرہا ہے وہ خدا کے تخلیقی منصوبہ کی بنا پر پیش آرہا ہے، نہ کہ اُن کے غلط انتخاب کی بنا پر۔ اگر دونوں اس حقیقت کو سمجھ لیں تو ازدواجی زندگی کا مسئلہ اپنے آپ ختم ہوجائے گا۔
خالق نے خود اپنے تخلیقی منصوبہ کے مطابق، ہر دو انسان کے درمیان فرق رکھا ہے۔ اس مسئلہ کا حل فرق کو مٹانا نہیں ہے بلکہ اس کا حل یہ ہے کہ انسان اس ہنر کو جانے جس کو آرٹ آف ڈیفرنس مینجمنٹ (art of difference management) کہا جاسکتا ہے۔ ڈیفرنس کو مٹانے کی کوشش نہ کیجیے بلکہ ڈیفرنس کے ساتھ جینا سیکھیے اور پھر آپ کی زندگی کامیاب ازدواجی زندگی بن جائے گی۔
خاندانی زندگی ہویا سماجی زندگی، دونوں میں اختلافات پیدا ہونا فطری ہے۔ اس مسئلہ کا حل صرف ایک ہے، اور وہ ہے— اختلاف کے باوجود متحد ہوکر رہنا۔