عورت اور مرد کا فرق
ایک روایت صحیح البخاری، صحیح مسلم،سنن ابوداود، سنن الترمذی، اور مسند احمد وغیرہ کتب حدیث میں آئی ہے۔ صحیح البخاری کے الفاظ یہ ہیں: مَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِينٍ أَذْهَبَ لِلُبِّ الرَّجُلِ الحَازِمِ مِنْ إِحْدَاكُنَّ (صحیح البخاری،حدیث نمبر304) ۔یعنی میں نے نہیں دیکھا کہ عقل اور دین میں ناقص ہونے کے باوجود ایک عورت عقل والے مرد کی عقل پر غالب آجائے۔عورت کے بارے میں ناقص کا لفظ قرآن میں کہیں نہیں آیا ہے۔ اس لیے اس حدیث کا لفظی معنی نہیں لیا جائے گا بلکہ اس کی تاویل کی جائے گی۔ اصل یہ ہے کہ اس حدیث میں ناقص ، کم ہونے کے معنی میں نہیں ہے۔ بلکہ فرق (different) کے معنی میں ہے۔
اصل یہ ہے کہ خالق کے تخلیقی نقشے کے مطابق، عورت اور مرد دونوں کے درمیان تخلیقی فرق رکھا گیا ہے۔ مگر یہ فرق رتبہ کے اعتبار سے نہیں ہے، بلکہ رول کے اعتبار سے ہے۔ کیوں کہ سماج میں عورت اور مرد کا رول تخلیقی نقشے کے مطابق ایک درجے میں الگ الگ ہے۔ اس لیے دونوں کے درمیان ان کے رول کے مطابق فرق رکھا گیا ہے۔
اسلام کی تعلیم کےمطابق، عورت اور مرد کے درمیان رتبہ (status) کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں، دونوں یکساں طور پر آدم کی اولاد ہیں۔ لیکن سماج میں ہمیشہ مختلف قسم کے کام ہوتے ہیں۔ سماج کا ہر کام نہ ہر مرد کرسکتا ہے، اور نہ ہر عورت۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ ہر عورت یا ہر مرد کو اس کی صلاحیت یا استعداد کے اعتبار سے کام دیا جائے۔ اس طرح ہر کام معیاری درجے میں انجام پائے گا۔ اس کے برعکس، اگر ہر عورت اور ہر مرد کو ایک ہی کام میں لگا دیا جائے تو کوئی بھی کام اعلیٰ صورت میں انجام نہیں دیا جاسکتا ۔ اس بنا پر اسلام میں عورت اور مرد کے درمیان تقسیم کار کے اصول کو اختیار کیا گیا ہے، نہ کہ یکسانیت کار کے اصول کو۔تاریخ کے ہر دور میں عملاً عورت اور مرد کے درمیان یہ اصول اختیار کیا گیا ہے۔