صحابی کی مثال
حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ، قَالَ:خَطَبَ يَزِيدُ بْنُ مُعَاوِيَةَ إِلَى أَبِي الدَّرْدَاءِ ابْنَتَهُ الدَّرْدَاءَ فَرَدَّهُ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ جُلَسَاءِ يَزِيدَ:أَصْلَحَكَ اللهُ، تَأْذَنُ لِي أَنْ أَتَزَوَّجَهَا؟ قَالَ:أَغْرِبْ وَيْلَكَ قَالَ:فَائْذَنْ لِي أَصْلَحَكَ اللهُ، قَالَ:نَعَمْ، قَالَ:فَخَطَبَهَا فَأَنْكَحَهَا أَبُو الدَّرْدَاءِ الرَّجُلَ، قَالَ: فَسَارَ ذَلِكَ فِي النَّاسِ: أَنَّ يَزِيدَ خَطَبَ إِلَى أَبِي الدَّرْدَاءِ فَرَدَّهُ، وَخَطَبَ إِلَيْهِ رَجُلٌ مِنْ ضُعَفَاءِ الْمُسْلِمِينَ فَأَنْكَحَهُ، قَالَ:فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ:إِنِّي نَظَرْتُ لِلدَّرْدَاءِ، مَا ظَنُّكُمْ بِالدَّرْدَاءِ إِذَا قَامَتْ عَلَى رَأْسِهَا الْخِصْيَانُ؟ وَنَظَرْتُ فِي بُيُوتٍ يُلْتَمَعُ فِيهَا بَصَرُهَا، أَيْنَ دِينُهَا مِنْهَا يَوْمَئِذٍ؟ (حلیۃ الاولیاء، جلد1، صفحہ215)۔
ثابت بنانی نے بیان کیا ہے کہ یزید بن معاویہ نے ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کے یہاں ان کی لڑکی درداء کے لیے نکاح کا پیغام بھیجا۔ حضرت ابو درداء نے اس کو رد کر دیا اس وقت یزید کے یہاں بیٹھنے والوں میں ایک شخص نے کہا کہ اللہ تمہارا بھلا کرے، تم مجھے اجازت دو کہ میں اس سے نکاح کر لوں، یزید نے کہا، دور ہو، تمہارا ناس ہو جائے۔ اس آدمی نے دوبارہ کہا کہ مجھے اجازت دو، اللہ تمہارا بھلا کرے۔ یزید نے کہا بہت اچھا۔ راوی کہتے ہیں کہ اس آدمی نے پیغام دیا تو حضرت ابودرداء نے اس سے اپنی لڑکی کا نکاح کر دیا۔ راوی کہتے ہیں کہ لوگوں میں اس بات کا چرچا ہوا کہ یزید نے ابو درداء کو پیغام دیا تو انہوں نے رد کر دیا اور کمزور مسلمانوں میں سے ایک شخص نے پیغام دیا تو انہوں نے اس سے نکاح کر دیا۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابو الدرداء نے یہ سن کر کہا: میں نے اس معاملہ میں درداء کا لحاظ کیا۔ درداء کے بارے میں تمہارا کیا گمان ہے، جب اس کے سرہانے خصی غلام کھڑے ہوتے اور وہ ایسے گھروں کو دیکھتی جس میں اس کی آنکھیں چکا چوند ہو جائیں۔ اس میں اس وقت اس کا دین کہاں رہ جاتا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی کا یہ واقعہ بتاتا ہے کہ مومن کو اپنی اولاد کے معاملہ میں کیسا ہونا چاہیے۔ مومن کو چاہیے کہ وہ سب سے زیادہ اپنی اولاد کے دین و ایمان کی حفاظت کرے۔ وہ ان کے دنیا کے مستقبل سے زیادہ ان کے آخرت کے مستقبل کے لیے فکر مند ہو۔