مہر کا مسئلہ
معاشرتی زندگی میں اسلام نے مرد اور عورت کے درمیان ایک متوازن تقسیم قائم کی ہے۔ یہ تقسیمِ عمل کے اعتبار سے ہے۔ اسلام نے دونوں صنفوں کے درمیان ایک واضح تقسیم عمل کو ملحوظ رکھا ہے۔ اسلام کے مطابق، گھر کو سنبھالنے کی ذمہ داری بنیادی طور پر عورت کے اوپر ہے اور مالیات کی فراہمی کی ذمہ داری بنیادی طور پر مرد کے اوپر۔ تقسیم کار کا یہ اصول جن نصوص سے نکلتا ہے ان میں سے ایک قرآن کی یہ آیت ہے:
الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّهُ(4:34)۔ یعنی مرد عورتوں کے اوپر قوام ہیں۔ اس بنا پر کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے۔ اور اس بنا پر کہ مرد نے اپنے مال سے خرچ کیا۔ پس جو نیک عورتیں ہیں وہ فرماں برداری کرنے والی، پیٹھ پیچھے نگہبانی کرنے والی ہیں اللہ کی حفاظت سے۔
ہر گھر ایک چھوٹی سی ریاست ہے۔ اس ریاست کا ایک مسئلہ اس کا اندرونی انتظام ہے۔ اور اس کا دوسرا مسئلہ اس کا مالیات(بالفاظ دیگر، خارجی اسبابِ حیات کی فراہمی) ہے۔ عورت اپنی پیدائشی بناوٹ کے اعتبار سے پہلے کام کے لیے زیادہ موزوں ہے۔ اور مرد اپنی پیدائشی بنائوٹ کے اعتبار سے دوسرے کام کی زیادہ بہتر صلاحیت رکھتا ہے۔ اس لیے اسلام کی معاشرتی اور انتظامی تقسیم میں یہ کیا گیا ہے کہ گھر کے داخلی امور کی ذمہ داری بنیادی طور پر عورت پر ڈالی گئی ہے۔ اور گھر کے خارجی امور اور مالیات کی فراہمی کی ذمہ داری بنیادی طور پر مرد کے اوپر ہے۔
نکاح کے وقت ایک مرد مہر کے نام سے جو رقم اپنی بیوی کے حوالے کرتا ہے اس کا تعلق اسی خاص پہلو سے ہے۔ اسلام کے مطابق چوں کہ مرد اصولی طور پر عورت کے اخراجات کا ذمہ دار ہے۔ اس لیے جب وہ ایک عورت سے نکاح کرتا ہے تو وہ نکاح کے ساتھ اس ذمہ داری کو قبول کرتا ہے کہ وہ عورت کے تمام ضروری اخراجات کی کفالت کرے گا۔ مہر اسی کی ایک علامت ہے۔ مرد اپنی بیوی کو مہر کے طور پر ایک علامتی رقم ادا کرکے عمل کی زبان میں اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ وہ اپنی بیوی کی مالیاتی کفالت کی ذمہ داری لے رہا ہے۔ مہر کی اصل حیثیت یہی ہے۔