ایک دانش مند خاتون
مہاراشٹرا کے ایک خاندان کا واقعہ میرے علم میں آیا۔ ایک لڑکی کی شادی اس کی اپنی پسند کے مطابق، ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے ہوئی۔ دونوں ایک ساتھ رہنے لگے۔ ان کے یہاں ایک لڑکا بھی پیدا ہوا، لیکن جلد ہی دونوں میں اختلافات شروع ہوگئے۔ بڑھتے بڑھتے نوبت یہاں تک پہنچی کہ لڑکی اپنے شوہر سے خفا ہو کر اپنے میکے میں اپنی ماں کے پاس چلی گئی۔ اور ماں سے اپنے شوہر کے خلاف شکایتی باتیں بتانے لگی۔ ماں نے سننے کے بعد کہا کہ ---- شادی دوبار نہیں کی جاتی۔ یا تو تم اپنے شوہر سے نباہ کرو یا زہر کھا کر مر جائو۔
لڑکی کے لیے اپنی ماں کا یہ جواب اس کی امیدوں کے سراسر خلاف تھا۔ اس جواب کو سن کر وہ رونے لگی اور چند دن تک وہاں اسی حال میں رہی۔ اس کی ماں نے کہا کہ ----- تم چاہے روئویا چلائو، میں نے اپنا جواب تم کو بتا دیا۔ میرا جواب بدلنے والا نہیں۔
ماں کا جواب لڑکی کے لیے ایک دھماکے سے کم نہ تھا، لیکن اس دھماکہ خیز جواب نے لڑکی کے اندر نئی سوچ پیدا کر دی۔ اسی دوران لڑکی کو راقم الحروف کی کتاب ’’راز حیات‘‘ (صفحات292) مل گئی۔ اس کو اس نے پڑھا۔ کتاب کو پڑھنے کے بعد اس کو معلوم ہوا کہ اس کی ماں نے جو کچھ کہا تھا، وہی اس معاملے میں صحیح بات ہے۔ مجھے اپنے شوہر کے ساتھ مل جل کر رہنا ہے۔ اب میرے لیے اس کے سوا کوئی اور انتخاب(option) نہیں ہے۔
اس طرح وہ لڑکی چند دن سوچتی رہی۔ آخر کار اس نے فیصلہ کیا کہ مجھے اپنے شوہر کے پاس واپس چلا جانا چاہیے۔ چنانچہ وہ کسی شرط کے بغیر اپنے شوہر کے پاس چلی گئی اور وہاں رہنے لگی۔ میں نے خود اپنے ایک سفر کے دوران دیکھا ہے کہ دونوں میاں اور بیوی خوشی سے ایک ساتھ رہ رہے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے کامیاب رفیق حیات بنے ہوئے ہیں۔ اختلاف کا معاملہ ربر کی مانند ہے۔ آپ چاہیں تو اس کو کھینچ کر بڑھا دیں اور چاہیں تو اس کو نہ بڑھائیں اور اس کو اپنی فطری حالت پر رہنے دیں۔