طلاق کا مسئلہ
طلاق (divorce) کیا ہے۔ طلاق کا مطلب یہ ہےکہ ایک بااختیار ادارہ کی طرف سے نکاح کے رشتے کو ختم کرنا:
The legal dissolution of a marriage by a court or other competent body.
نکاح صرف ایک مرد اور ایک عورت کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ نکاح قانون فطرت کا معاملہ ہے۔ ایک مرد اور ایک عورت جب نکاح کے ذریعہ آپس میں رشتہ قائم کرتے ہیں تو وہ فطرت کے ایک قانون کو اپنے اوپر منطبق (apply)کرتے ہیں۔ فطرت کے جو قوانین ہیں، وہ سب کے سب بلا استثنا زندگی کے محکم اصول پر قائم ہیں۔ نکاح کا مطلب یہ ہے کہ ایک عورت اورایک مرد باہمی طور پر ایک دوسرے کے پارٹنر بنیں، اور کاگ وھیل (cogwheel) کی مانند ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہوئے خالق کے نقشۂ تخلیق (creation plan) کی تکمیل کریں۔
اس اعتبار سے طلاق خالق کے نقشۂ تخلیق کا حصہ نہیں۔ وہ انسان کے غلط استعمال آزادی (misuse of freedom) کا حصہ ہے۔ طلاق کسی انسان کے لیے ایک جذباتی ظاہرہ (emotional phenomenon) ہے۔ وہ انسان کی حقیقی ضرورت (real need) کا حصہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ طلاق کا ایک ٹائم باؤنڈ منضبط طریقہ (prescribed method) مقرر کیا گیا ہے، جو تین مہینہ کے پراسس میں مکمل ہوتا ہے۔ جذباتی ارادہ ہمیشہ وقتی ہوتا ہے۔ اس لیے طلاق کا ایک طویل کورس بنادیا گیا ہے۔ تاکہ آدمی اپنے ارادے پر از سر نو غور (rethinking) کرے، اور جذباتی فیصلہ کے بجائے سوچے سمجھے فیصلہ کو اختیار کرے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ طلاق کا ارادہ ایک جذباتی ارادہ ہے۔ آدمی کو اگر سوچنے کا وقفہ دیا جائے تو زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ اپنی رائے پر نظر ثانی کرے گا، اور نکاح کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کرے گا۔
میں ذاتی طور پر ایسے واقعات کو جانتا ہوں جب کہ ایک انسان نے نکاح کے بعد جذباتی طور پر طلاق کا ارادہ کیا۔ لیکن ایسے اسباب پیش آئے کہ وہ فور ی طور پر طلاق نہ دے سکا، بلکہ اپنے ارادے پر بالقصد یا حالات کے دباؤ کے تحت نظر ثانی کی۔ اس کے بعد اس کا ارادہ بدلا، اور اس نے منکوحہ عورت کے ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا۔ اس کا نتیجہ حیرت ناک تھا۔ وہ یہ کہ مرد نے عور ت کی خصوصیات کو دوبارہ دریافت (rediscover) کیا، اور پھر ان خصوصیات کو استعمال (utilize) کیا۔ اس کے بعد دونوں کاگ وھیل (cogwheel) کی طرح مل کر کام کرنے لگے، اور انھوں نے غیر متوقع طور پر بڑی کامیابی حاصل کی۔
اصل یہ ہے کہ لوگ عام طور پر شادی شدہ عور ت کو اپنے لیے صرف ہوم پارٹنر (home partner) سمجھتے ہیں۔ حالاں کہ فطرت کے قانون کے مطابق، عورت اور مرد دونوں ایک دوسرے کے لیے لائف پارٹنرس ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے فطرت کی طرف سے دیے ہوئے انٹلکچول پارٹنر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے بغیر ادھورے ہیں، اور دونوں مل کر ایک دوسرے کے لیے تکملہ (counterpart) بن جاتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ایک طرف قرآن میں طلاق کا ایک مقررہ طریقہ (prescribed course) ان الفاظ میں بتایا گیا ہے: الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ (2:229)۔ یعنی طلاق دو بار ہے، پھر یا تو قاعدہ کے مطابق رکھ لینا ہے یا خوش اسلوبی کے ساتھ رخصت کردینا۔ دوسری طرف حدیث میں طلاق کے بارے میں آیا ہے:أبغض الحلال إلى الله الطلاق(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر2018)۔ یعنی خالق کے نزدیک طلاق انتہائی حد تک ایک غیر مطلوب چیز ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص طلاق پر اصرار کرے تو اس کو چاہیے کہ وہ مقرر کورس کے مطابقان تین مہینوں تک جذبات سے کام لینے کے بجائے خوب سوچے، اور پھر تیسرے مہینے میں عدت کے اختتام پر طلاق کی تکمیل کرے۔ ایساانسان کو یہ موقع دینے کے لیے کیا گیا کہ وہ آخری حد تک سوچے ، اور طلاق صرف اس وقت دے، جب کہ طلاق اس کے لیے سوچے سمجھےفیصلہ کے تحت ایک ناگزیر ضرورت بن جائے۔ فطرت کے مطابق ، نہ کہ خواہش کے مطابق اس کے لیے کوئی دوسر ا آپشن سرے سے موجود ہی نہ ہو۔
موجودہ زمانے میں طلاق کو لے کر ایک نیا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے۔ وہ ہے تین طلاق کا مسئلہ۔ تین طلاق کا طریقہ بدعت کا طریقہ ہےجو بعد کے زمانے میں پیدا ہوا۔ ابتدائی دور کا مسلم معاشرہ اس مبتدعانہ طریقہ سے پاک تھا۔ تین طلاق کا مسئلہ کیسے پیدا ہوا۔ اس معاملے میں عبد اللہ ابن عباس کی ایک روایت ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں: كان الطلاق على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأبي بكر، وسنتين من خلافة عمر، طلاق الثلاث واحدة، فقال عمر بن الخطاب: إن الناس قد استعجلوا في أمر قد كانت لهم فيه أناة، فلو أمضيناه عليهم، فأمضاه عليهم (صحیح مسلم، حدیث نمبر1472)۔ اس معاملے میں دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں:وكان عمر إذا أتي برجل طلق امرأته ثلاثا أوجع ظهره (سنن سعید بن منصور، حدیث نمبر 1073)۔ یعنی عبد اللہ ابن عباس کہتے ہیں کہ طلاق کا معاملہ رسول اللہ کے عہد میں اور ابوبکر کے عہد میں اور عمر کے ابتدائی دو سالوں میں یہ تھا کہ تین طلاق ایک تھی۔ تو عمر بن الخطاب نے کہا کہ لوگ اس معاملہ میں جلد بازی سے کام لے رہے ہیں، جس میں ان کے لیے جلد بازی نہیں تھی، تومیں چاہتا ہوں کہ لوگوں کے لیے ایک حکم جاری کر دوں۔ چنانچہ انھوں نےحکم جاری کیا۔ دوسری روایت کے مطابق، اس حکم کا ایک جزءیہ بھی تھا کہ: عمر کے پاس جب ایسا آدمی لایا جاتا جس نے اپنی عورت کو (بیک وقت )تین طلاق دی ہو تو عمر اس کی پیٹھ پر کوڑے مارتے تھے۔
خلیفہ ثانی عمر فاروق نے ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین واقع کرنے کا جو عمل کیا، اس کی حیثیت حکم حاکم (executive order) کی تھی۔ اس کی حیثیت شریعت میں کسی تبدیلی کی نہ تھی۔ یہ ایک امر واقعہ ہے کہ حکم حاکم ہمیشہ وقتی ہوتا ہے۔ وہ محدود زمانے کے لیے ہوتا ہے، نہ کہ اللہ کے حکم کی طرح قیامت تک کے لیے ایک ابدی حکم۔ لیکن بعد کے علما نے حاکم کے اجتہادی حکم کو عملاً امر شرعی کا درجہ دے دیا۔ وہ خلیفہ عمر کے اسی عمل پر فتویٰ دینے لگے،جب کہ خلیفہ عمر کا ہرگز یہ منشا نہ تھا۔بعد کے علما کو یہ حق نہ تھا کہ وہ خلیفہ کے حکم کو شرعی حکم کی طرح عام حکم کر دیں۔ اسی لیے عمر فاروق کے حکم کو عام کرنے کے باوجود ان کے لیے یہ ممکن نہ ہوا کہ وہ خطاکار کے پیٹھ پر کوڑے ماریں، اور اس کے بعد تین طلاق کو شرعی طور پر واقع کرنے کا فتوی دیں۔کیوں کہ کوڑا مارنے کا حق مسلمہ طور پر صرف حاکم کو ہے، کسی اور کو ہرگز نہیں۔جب علما کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ خطاکار کو کوڑے ماریں تو ان کو یہ بھی حق نہیں تھا کہ وہ خلیفہ کے حکم کو عام کریں، اور عام کرکے تین طلاق کو واقع کرنے کا طریقہ اختیار کریں۔ بعد کے علما کا یہی وہ اجتہادی طریقہ ہے ، جس سے تین طلاق (triple talaq) کا موجودہ مسئلہ پیدا ہوا۔
معروف عالم ابن تیمیہ( 661-728ھ) نے علما کی اس غلطی کو جانا اور انھوں نے اس کے خلاف فتویٰ دیا۔ انھوں نے کہا : إن طلقها ثلاثا في طهر واحد بكلمة واحدة أو كلمات...أنه محرم ولا يلزم منه إلا طلقة واحدة... فإن كل طلاق شرعه الله في القرآن في المدخول بها إنما هو الطلاق الرجعي؛ لم يشرع الله لأحد أن يطلق الثلاث جميعا (مجموع الفتاوى، 33/8-9)۔ یعنی اگر کسی نے ایک طہر میں تین طلاق دی، ایک ہی کلمہ میں یا ایک سے زیادہ کلمات میں ... تو یہ حرام ہے، اور اس سے صرف ایک طلاق لازم آتی ہے... کیوں کہ ہر وہ طلاق جس کو اللہ نے قرآن میں مدخول بہا کے لیے مشروع کیا ہے، وہ طلاق رجعی ہے، اللہ نے کسی کے لیے ایک ساتھ تین طلاق کو مشروع نہیں کیا ۔
مگر ابن تیمیہ کے بعد سلفی علماکے سوا دوسرے علمانے ابن تیمیہ کے اس فتویٰ کو عملاً تسلیم نہیں کیا۔ وہ بدستور اپنی سابق روش پر قائم رہے۔ اس معاملے میں علما کی روش ایک غلط فہمی پر قائم تھی۔انھوں نے غلط طور پر بعد کے علما کی روش کو اجماعِ امت کا مسئلہ بنا لیا۔ حالاں کہ ہرگز وہ اجماعِ امت کا مسئلہ نہ تھا۔ یہ بلاشبہ ایک غلط فہمی کا معاملہ تھا۔ خلیفہ عمر فاروق کے بعد آنے والے علما نے یہ غلطی کی کہ انھوں نے حکم حاکم (executive order) کو امر شرعی کا درجہ دے دیا۔ مزید غلطی یہ ہوئی کہ غلط فہمی پر مبنی علما کے اس عمل کو اجماعِ امت کا درجہ دے دیا گیا۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ ایک غلطی پر دوسری غلطی کا اضافہ تھا۔ یعنی پہلےمرحلہ میں حکم حاکم کو امر شرعی کا درجہ دینا، اور پھر غلط فہمی پر مبنی علما کے اس عمل کو اجماعِ امت سمجھ لینا۔
اب سوال یہ ہے کہ اس معاملہ میں صحیح موقف کیا ہے۔ صحیح موقف یہ ہے کہ اس معاملے میں ماضی کی غلطی کی تصحیح کی جائے،اور وہ یہ ہے کہ خلیفہ کے عمل کو حکم حاکم (executive order) کا درجہ دیا جائے، نہ کہ حکم شریعت کا درجہ۔ دوسری بات یہ ہے کہ بعد کے علما نے جب خلیفہ عمر کے عمل کی بنیاد پر فتویٰ دینا شروع کردیا تو یہ فتویٰ ناقص فتویٰ کی حیثیت رکھتا تھا۔ کیوں کہ ان علما نے طلاقِ ثلاثہ کو واقع کرنے کا فتویٰ تو دیا، جب کہ اس کے لازمی جزء ،یعنی کوڑا مارنےکو چھوڑ دیا۔اس طرح اس مسلک کی کوئی بنیاد نہ تھی۔ یہ مسلک نہ تو ابتدائی دور پر قائم تھا، اور نہ خلیفہ عمر کے مسلک پر۔ اس کا جواز نہ تو دور اول کے عمل پر قائم تھا، اور نہ خلیفہ عمر کے حکم حاکم کے عمل پر۔ اب ضرورت ہے کہ امام ابن تیمیہ کے فتوٰی کو اس معاملے میں دوسرے علما بھی درست مسلک کے طور پر اختیار کرلیں، جس طرح سلفی علما نے اس کو اختیار کرلیا ہے۔ یعنی طلاقِ ثلاثہ کو غضب پر محمول کرنا، اور اس کو ایک طلاق کا درجہ دینا۔